بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع سے متعلق بخاری شریف کی ایک حدیث کی تشریح


سوال

 بخاری شریف کی حدیث نمبر ۵۲۷۳،  جس میں ذکر ہے کہ ایک صحابیہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائیں، اور کہا کہ مجھے اپنے شوہر کے دین اور اخلاق سے کوئی شکایت نہیں، لیکن میں حقوقِ زوجیت ادا نہیں کرسکتی  تو  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہر میں جو باغ انہوں نے آپ کو دیا تھا کیا آپ وہ باغ انہیں واپس کرسکتی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جی کرسکتی ہوں ، پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شوہر کو بلایا اور فرمایا : کہ باغ قبول کرلو اور انہیں طلاق دے دو ۔

یہ معلوم کرنا تھا کہ حدیث میں صحابیہ کس وجہ سے حقوقِ زوجیت ادا کرنے سے منع فرما رہی ہیں، مہربانی فرماکر راہ نمائی فرمادیجیے!

جواب

بخاری شریف کی مذکورہ روایت میں حقوقِ زوجیت ادا کرنے کا ذکر نہیں ہے، اس کے الفاظ ہیں کہ ’’میں ان کے دین اور اخلاق  کو ناپسند نہیں کرتی ، بلکہ مجھے اسلام میں کفر ناپسند ہے‘‘، اس عبارت کی تشریح حضرات محدثین نے مختلف کی ہے، لیکن ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ صحابیہ اپنی خوب صورتی اور ان کی قبول صورت کی بنا پر انہیں ناپسند کرتی تھیں، اس لیے انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ درخواست کی، چوں کہ ان کی ناموافقت کی وجہ سے باہمی نباہ مشکل تھا، اور یوں ساتھ رہنے کی صورت میں نکاح کے مقاصد حاصل ہونے کے بجائے جانبین سے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی اور نعمتِ نکاح کی ناشکری کا امکان زیادہ تھا، اسی بات کو انہوں نے یوں تعبیر کیا کہ اسلام کے بعد میں کفر (ناشکری) کو ناپسند کرتی ہوں۔

چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مجبور نہیں کیا کہ وہ لامحالہ ان کے ساتھ ہی زندگی گزاریں، بلکہ ان کے شوہر سے انہیں طلاق دینے کی سفارش فرمائی، اور اس کے عوض ان خاتون کو مہر واپس کرنے کا فرمایا، ان کے شوہر نے رسول اللہ ﷺ کی سفارش قبول کرتے ہوئے طلاق دے دی۔

اس کی تشریح علامہ عینی رحمہ اللہ کی عبارت میں ملاحظہ فرمائیں:

"قوله: وما أعتب بضم التاء المثناة من فوق وكسرها من عتب عليه إذا وجد عليه يقال: عتب على فلان أعتب عتباً والاسم المعتبة والعتاب هو الخطاب بإدلال ويروى وما أعيب بالياء آخر الحروف من العيب أي لاأغضب عليه ولاأريد مفارقته لسوء خلقه ولا لنقصان دينه ولكن أكرهه طبعاً فأخاف على نفسي في الإسلام ما ينافي مقتضى الإسلام باسم ما ينافي في نفس الإسلام وهو الكفر ويحتمل أن يكون من باب الإضمار أي لكني أكره لوازم الكفر من المعاداة والنفاق والخصومة ونحوها، وجاء في رواية جرير بن حازم إلا أني أخاف الكفر قيل: كأنها أشارت إلى أنها قد تحملها شدة كراهتها على إظهار الكفر لينفسخ نكاحها منه وهي تعرف أن ذلك حرام لكن خشيت أن يحملها شدة البغض على الوقوع فيه، وقيل: يحتمل أن يريد بالكفر كفران العشير إذ هو تقصير المرأة في حق الزوج، وجاء في رواية ابن جرير والله ما كرهت منه خلقاً ولا ذنباً إلا أني كرهت دمامته، وفي رواية أخرى له قالت: يا رسول الله لايجمع رأسي ورأسه شيئاً أبداً إني رفعت جانب الحياء فرأيته أقبل في عدة فإذا هو أشدهم سوادا وأقصرهم قامة وأقبحهم وجهاً الحديث وفي رواية ابن ماجه كان رجلاً دميماً فقالت: يا رسول الله والله لولا مخافة الله إذا دخل علي بصقت في وجهه، وعن عبد الرزاق عن معمر قال: بلغني أنها قالت: يا رسول الله وبي من الجمال ما ترى وثابت رجل دميم، فإن قلت: جاء في رواية النسائي أنه كسر يدها، فكيف تقول: لاأعتب الخ قلت: أردت أنه سيء الخلق لكنها ما تعيبته بذلك ولكن تعييبها إياه كان بالوجوه التي ذكرناها". (عمدة القاري، باب الخلع وکیف الطلاق:۳۰/۱۳۷) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200580

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں