بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

باپ کے مال سے چوری کرنا


سوال

والد صاحب کے مال سے چوری کرنا کیسا ہے؟ جب کہ اولاد ضرورت مند ہو اور والد صاحب ان کی ضروریات پوری نہ کرتے ہوں، اور اولاد ہو بھی شادی شدہ؟  اگر چوری کر لی ہو تو اب کیا حکم ہے ؟

جواب

بیٹے کے بالغ ہونے کے بعد( اگر وہ معذور نہ ہو اور کمانے کے قابل ہو تو) اس کا کسی بھی قسم کا خرچہ شرعاً والد کے ذمہ نہیں رہتا ،  بلکہ خود ان پر لازم ہے کہ اپنی ضروریات کی خود فکر کریں جب کہ  بیٹیوں کا نفقہ شادی ہو جانے تک ہر حال میں والد کے ذمے ہے، چاہے وہ بالغ ہوں یا نابالغ ، شادی ہوجانے کے بعد ان کا نفقہ بھی باپ پر لازم نہیں؛ اس لیے مذکورہ صورت میں  اولاد کے لیے والد  سے خرچہ کا مطالبہ کرنا ہی جائز نہیں چہ جائے کہ ان کے مال سے چوری کی جائے۔

جس صورت میں والد پر نفقہ واجب ہو، تب بھی چوری چھپے لینے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ ادب اور تہذیب کے ساتھ ہی اخراجات لینے چاہییں۔ اگر اس صورت میں والد واجب نفقہ بھی ادا نہ کرے اور قدرِ کفایت ضروری نفقہ اولاد استعمال کرلے تو اس پر اولاد کا مواخذہ نہیں ہوگا۔ لیکن جب والد پر نفقہ ہی واجب نہیں ہے تو اس سے نفقے کا مطالبہ کرنا اور ادا نہ کرنے کی صورت میں اس کے مال سے چوری کرنا جائز نہیں۔  اگر کرلی ہو تو کسی طریقے سے ان کی رقم واپس کردے ۔

  البتہ اگر باپ اور اولاد کا مشترکہ کام ہو تو والد کو اپنی اولاد کی ضروریات کے مطابق ان کا خرچہ دینا ضروری ہے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200100

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں