بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بالوں کی سرجری کرنے کا حکم


سوال

کیا بالوں کی سرجری کروائی جا سکتی ہے؟ بال بڑھتے بھی ہوں اور جلد سے الگ نا ہوتے ہوں!

جواب

بصورتِ مسئولہ میں اگر سر پر لگوائے جانے والے بال  اسی لگانے والے شخص کے جسم کے کسی حصہ کے ہوں یا خنزیر کے علاوہ کسی اور جانورکے ہوں یا کیمیکل وغیرہ سے بنے ہوئے مصنوعی بال ہوں تو اس کو سر پر کھال میں بذریعہ سرجری (آپریشن)  پیوست کردینا، یا اس طرح کھال پر چسپاں کردینا کہ اس کا آسانی سے الگ کرنا ممکن نہ ہو، ازروئے شرع اس طرح کے بال لگانا  درست ہے بشرطیکہ ان مصنوعی بالوں سے کسی موقع پر دھوکا یا خلافِ حقیقت صورت کا اظہار مقصود نہ ہو، اسی طرح اگر سرجری کے دوران جسم کاٹنے اور چیرنے کی مشقت اٹھانی پڑتی ہے تو اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ کسی دوسرے انسان کے بال لگوانا شرعاً ناجائز اور حرام ہے، خواہ وگ ایسی ہو  جسے بآسانی اتارا جاسکتا ہو یاسرجری (آپریشن) کے ذریعے سر میں فٹ کردیا گیا ہو، حدیث شریف میں ایسے شخص پر لعنت وارد ہوئی ہے۔

نیز وضو اور غسل کے اعتبار سے ان بالوں کا حکم یہ ہے کہ سرجری کے بعد چوں کہ یہ بال بدن کا حصہ بن جاتے ہیں تو ان پرمسح کرنا اور غسل کرنا  جائز ہے۔ البتہ اگر وگ ایسی ہو جسے باآسانی لگایا اور اتارا جاسکتا ہو، وہ ٹوپی کے حکم میں ہے، وضو میں اس کو اتار کر سر کا مسح کرنا ضروری ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

 "عن ابن عمر  أن النبی ﷺ قال : لعن الله الواصلة و المستوصلة و الواشمة و المستوشمة".

( متفق علیه ، المشکاة : ٣٨١ )

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا: اللہ تعالی نے لعنت فرمائی اس عورت پر جو اپنے بالوں میں کسی دوسرے کے بالوں کا جوڑ لگائے اور اس عورت پر جوکسی دوسری عورت کے بالوں میں اپنے بالوں کا جوڑ لگائے اور جسم گودنے اور گدوانے والی پر ( بھی لعنت فرمائی )۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي اختيار: ووصل الشعر بشعر الآدمي حرام، سواء كان شعرها أو شعر غيرها؛ لقوله صلى الله عليه وسلم: «لعن الله الواصلة و المستوصلة و الواشمة و المستوشمة و الواشرة و المستوشرة و النامصة و المتنمصة». النامصة التي تنتف الشعر من الوجه، والمتنمصة التي يفعل بها ذلك.

(قوله: سواء كان شعرها أو شعر غيرها)؛ لما فيه من التزوير، كما يظهر مما يأتي، وفي شعر غيرها انتفاع بجزء الآدمي أيضاً، لكن في التتارخانية: وإذا وصلت المرأة شعر غيرها بشعرها فهو مكروه، وإنما الرخصة في غير شعر بني آدم تتخذه المرأة؛ لتزيد في قرونها، وهو مروي عن أبي يوسف، وفي الخانية: ولا بأس للمرأة أن تجعل في قرونها وذوائبها شيئاً من الوبر."

(فصل فی النظر والمس،  ج:6، ص: 372، ط:ایچ ایم سعید)

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

"فلايصح مسح أعلى الذوائب المشدودة على الرأس".

قوله: "المشدودة على الرأس" أي التي أديرت ملفوفةً على الرأس بحيث لو أرخاها لكانت مسترسلةً، أما لو كان تحته رأس فلا شك في الجواز."

(كتاب الطهارة، ص:60، ط:مكتبه رشيديه)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144109203163

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں