بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بالوں میں ون سائٹ کٹنگ، ٹو سائٹ کٹنگ، فوجی کٹنگ کا حکم


سوال

شریعت میں بالوں کے شرعی حقوق کیاہیں؟اور آیا ون سائٹ کٹنگ اور ٹو سائٹ کٹنگ اور ساتھ  چھوٹے بچوں کے بالوں کے میں جو عموماً فوجی کٹ یا پھر برگر کٹنگ کرواتے ہیں،  کیا اس طرح بال کٹوانا جائزہے ؟

جواب

احادیثِ مبارکہ  سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ سر پر بال رکھنے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے، عام حالت میں کانوں کی لو تک بال رکھا کرتے اور کبھی وہ بڑھ کر  کندھے کے قریب بھی پہنچ جایا کرتے؛ اس لیے عام حالات میں بال  رکھنے کا مسنون طریقہ یہی ہے، لیکن آپ ﷺ نے بال رکھنے سے متعلق بہت سی ہدایات بھی دی ہیں کہ اگر کوئی شخص بال کاٹے تو پورے کاٹے، آدھے کاٹنا اور آدھے بال رکھنا جیسا کہ غیر اقوام کا طریقہ ہے، یہ درست نہیں، اسی طرح آپ ﷺ نے یہ بھی تعلیم دی کہ جو شخص بال رکھے ان کا اِکرام بھی کرے،  یعنی کنگھی اور تیل وغیرہ کا اہتمام کرے اور بال کو صاف ستھر ا رکھے اور  اس کو پراگندہ ہونے سے بچائے۔

بال رکھنا جس طرح سنت ہے، اسی طرح بال کاٹنے کو بھی بعض محدثین نے اور بالخصوص ہمارے فقہاءِ کرام نے سنت کہا ہے، اور ہر جمعہ بالوں کے حلق کو مستحب کہا گیا ہے۔

نیز بال کٹوانے کے بارے میں شریعت کا  حکم یہ ہے کہ  یا تو  سر کے پورے بال رکھے جائیں یا پورے کاٹے جائیں، سر کے کچھ بال کاٹنا اور کچھ چھوڑدینا منع ہے، اسے حدیث میں "قزع" سے تعبیر کرکے اس کی ممانعت کی گئی ہے، اور "قزع"  کی مختلف صورتیں ہیں، حاصل ان کا یہی ہے کہ سر کے بال کہیں سے کاٹے جائیں اور کہیں سے چھوڑدیے جائیں۔ سوال میں بالوں کی کٹنگ کے جن اسٹائلز کا ذکر کیا گیا ہے، وہ ممنوعہ صورتوں میں داخل ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200697

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں