بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بالغ لڑکے کا از خود شادی کرنا


سوال

میں ایک پٹھان گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، ہمارے ہاں عموماً 18 /20-22 کی عمر میں شادی کر دی جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر 22 سال کی عمر میں باپ کو بیٹا خود کہتا رہے کہ میری شادی کر دیں کہیں بھی امیر غریب میں، مجھے شادی کی ضرورت ہے،  3 سال تک کوئی رشتہ ہی نہ پسند آئے یا آئے تو وہاں بس میں نہ ہو اخراجات کی وجہ سے، پھر دو سال تک والدہ سے کہتا رہے کہ میرے لیے  کوئی مناسب رشتہ ڈھونڈیں اور وہ یہ کہہ کر ٹال دیں کہ باپ کے بارے کوئی پوچھے تو کیا جواب دو گے؟  والدہ سے کہا کہ باپ کو انوالو ہی نہیں کرنا چاہتا اوریہاں تک کہہ دیا ایک دن کہ میرے لیے رشتہ دیکھیں ورنہ میں خود کسی جگہ کروں گا تو کسی بھی جگہ کروں گا اگرچہ وہ رنڈی ہی کیوں نہ ہو۔سو ماں بھی کہیں بات نہ کرے اور پھر خود دو رشتے لایا ایک عالم کے گھر سے اور دوسرا پٹھانوں کے گھر سے جن کی  کوئی ڈیمانڈ نہ تھی، انہیں بھی انکار کردیا ۔اب پانچ سال کے بعد میں نے باہر ملک میں لڑکی پسند کی جو مسلم ملک سے ہے مسلم ہے، تین سال ہونے کو ہیں پر سارا خاندان اب میرے خلاف ہے کہ اس کو چھوڑ دو، پر میں اس کے ماں باپ سے فائنل بات کر چکا ہوں اور تین سال بعد اب میرے لیے انکار ممکن نہیں ہے، والدین کی رضا یا اجازت ان کے لیے مزید انتظارکرنا چاہیے اور مجھے اپنے والدین کی طرف سے تحریری اجازت چاہیے اور مجھے نہیں دے رہے کیا بلوغت کے بعد اپنی مرضی سے شادی کرنا میرا حق نہیں جو مجھ سے چھینا جا رہا ہے جب کہ میں ان کو موقع اور پورا وقت دے چکا ہوں پر یہ لوگ میری شادی نہیں کرا سکے اور اب مجھے ہر روز زنا میں پڑ جانے کا خوف رہتا ہے اور اس کے علاوہ مجھ سے جو گناہ ہو رہے ہیں اس کا کون ذمہ دار ہے؟ برائے مہربانی تفصیل سے جواب دیں۔

جواب

بچے جب شادی کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے نکاح کا انتظام کرانا والدین کی ذمہ داری ہے، اس میں معمولی اور غیر اہم امور کی وجہ سے تاخیر کرنا مناسب نہیں، خصوصاً موجودہ ماحول میں جہاں بے راہ روی عام ہے، جلد از جلد اس ذمہ داری کو ادا کردیناچاہیے، اگر والدین بلاوجہ تاخیر کررہے ہوں اور بیٹا از خود شادی کرلے تو گناہ گار تو نہیں ہوگا، لیکن ایساکرنا معاشرے میں  معیوب سمجھاجاتاہے اور اس طرح کے نکاح کے بعد عموماً ذہنی سکون حاصل نہیں ہوپاتا جو نکاح کا ایک اہم مقصد ہے ؛ اس لیے  بہتر یہ ہے کہ دیگر بڑوں بزرگوں وغیرہ کی وساطت سے والدین کو تیار کیا جائے کہ وہ اس ذمہ داری کو ادا کریں از خود ایسا قدم نہ اٹھائیں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200613

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں