بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بازار میں بلند آواز میں تلاوت لگانا


سوال

ہمارے  علاقے  میں قرآن سینٹر کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوا ہے، ان کا خیال ہے کہ باہر گلی میں جو کہ ایک بازار بھی ہے ایک اسپیکر لگایا جا ئے جس پر تلاوتِ قرآنِ پاک لگی رہے؛ تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ یہ قرآن سینٹر ہے،

1: کیا یہ جائز ہے کہ تلاوت لگی ہو اور لوگ اپنا اپنا کام بھی کر تے رہیں؟

2: کیا یہ حکم صرف اس کے لیے ہے کہ قرآنِ مجید غور سے سنے جس نے تلاوت لگا ئی ہے، یا جس جس تک آواز پہنچے اس کے لیے بھی کام کاج چھوڑ کے تلاوت سننا ضروری ہے؟

3: اگر تلاوت لگا دی جائے اور جن جن تک آواز پہنچے وہ اپنے اپنے کام کاج میں مصروف رہیں تو گناہ کس کو ہو گا تلاوت لگانے والے کو یا سب کو؟

جواب

علماءِ کرام نے لکھا ہے کہ ریکارڈ شدہ تلاوت کے بھی وہی آداب ہیں جو اصل تلاوت سننے کے ہیں، نیز  ریکارڈ شدہ تلاوت سننے پر ثواب بھی ملتاہے؛  لہذا ایسے مقامات پر بلند آواز سے تلاوت لگانے سے اجتناب  کرنا چاہیے جہاں سننے کا اہتمام نہ کیا جاسکے۔ 

حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ عثمانی رحمہ اللہ ’’جدید آلات کے شرعی احکام‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:

’’یہ بھی ظاہر ہے کہ قرآنِ کریم جب اس میں (ٹیپ ریکارڈ میں) پڑھنا جائز ہے تو اس کا سننا بھی جائز ہے، شرط یہ ہے کہ ایسی مجلسوں میں نہ سناجائے جہاں لوگ اپنے کاروبار یا دوسرے مشاغل میں لگے ہوں، یاسننے کی طرف متوجہ نہ ہوں،  ورنہ بجائے ثواب کے گناہ ہوگا ‘‘۔ (آلاتِ  جدیدہ کے شرعی احکام،ٹیپ ریکارڈ پر تلاوت قرآن کا حکم،ص:207،ادارۃ المعارف)

واضح رہے کہ نماز  کے دوران تلاوت کو  اور خطبہ خواہ وہ جمعہ کا ہو یا کوئی اور ہو  اسے  کان لگاکر سننا، اور اس دوران خاموش رہنا  واجب ہے، البتہ نماز اور خطبہ کے علاوہ عام حالات میں کوئی شخص بطورِ خود تلاوت کر رہا ہے تو دوسروں کو خاموش رہ کر اس پر کان لگانا واجب ہے یا نہیں، اس میں فقہاء کے اقوال مختلف ہیں، بعض حضرات نے اس صورت میں بھی کان لگانے اور خاموش رہنے کو واجب اور اس کے خلاف کرنے کو گناہ قرار دیا ہے، لیکن بعض دوسرے فقہاء نے یہ تفصیل فرمائی ہے کہ کان لگانا اور سننا صرف ان جگہوں میں واجب ہے جہاں قرآن کو سنانے ہی کے لیے پڑھا جارہا ہو، جیسے نماز و خطبہ وغیرہ میں،  اور اگر کوئی شخص بطورِ خود تلاوت کر رہا ہے یا چند آدمی کسی ایک مکان میں اپنی تلاوت کر رہے ہیں تو دوسرے کی آواز پر کان لگانا اور خاموش رہنا واجب نہیں، لیکن اولی اور بہتر سب کے نزدیک یہی ہے کہ خارجِ نماز بھی جب کہیں سے تلاوت قرآن کی آواز آئے تو اس پر کان لگائے اور خاموش رہے، اسی لیے ایسے مواقع میں جہاں لوگ سونے میں یا اپنے کاروبار میں مشغول ہوں تلاوتِ قرآن بآواز بلند کرنا مناسب نہیں۔(مستفاد از معارف القرآن)

اگر پہلے سے ضروری کام یا گفتگو میں مشغول ہوں اور کوئی دوسرا شخص تلاوت کی ریکارڈنگ لگالے تو  اگرچہ خاموش ہونا اور کام چھوڑنا واجب نہیں ہوگا، لیکن بہرحال جس قدر ہوسکے ادب کے ساتھ  تلاوت کی طرف دھیان رکھنا چاہیے، اگر دھیان نہ رکھ سکیں تو ایسے مواقع پر بلند آواز سے تلاوت لگانے والا گناہ گار ہوگا۔فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

تلاوت ریکارڈنگ کا حکم

ریکارڈنگ اور کیسٹ میں قرآن مجید کی تلاوت پر خاموش ہونا

کوئی کام کرتے ہوئے پس منظر میں تلاوت لگاکر سننا


فتوی نمبر : 144107200122

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں