بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بارش کے پانی کو پاک پانی کہنے کی وجہ


سوال

اللّہ نے قُرآن میں بارش کے پانی کو پاک پانی کے نام سے کیوں پکارا ہے؟

جواب

اللہ سبحانہ وتعالیٰ  سورۂ فرقان کی آیت نمبر 48 میں ارشاد فرماتے ہیں:

 

{وَهُوَ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ ۚ وَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً طَهُورًا } [الفرقان: 48]

ترجمہ: اور وہی اللہ ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے بشارت دینے والی بناکر اپنی رحمت (بارش کے نزول) سے پہلے، اور ہم نے نازل کیا آسمان سے پانی پاک کرنے والا۔

یہاں اللہ تعالیٰ نے پانی کو ’’پاک کرنے والا‘‘  فرمایا ہے، یعنی یہ پانی نہ صرف یہ کہ پاک ہے، بلکہ پاک کرنے والا بھی ہے، پانی اپنی خلقی حالت پر ہونے کی صورت میں پاک اور پاک کرنے والا ہوتاہے، اور پانی یا تو شیریں ہوتاہے یا شور، اورعموماً انسان اپنی ضروریات (کھانے پینے سے لے کر جسمانی طہارت اور لباس و رہائش کی صفائی تک) میں جو پانی استعمال کرتاہے وہ میٹھا پانی ہوتاہے،  اور اس کی اصل بارش کا پانی ہوتاہے، یہی پانی  برسنے کے بعد  ندی، نالوں اور دریاؤں کی صورت میں بہتاہے، اور یہی زمین کی تہہ میں اتر کر چشموں اور کنوؤں کی صورت میں انسانیت کو سیراب کرتاہے، اور یہی بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کی صورت میں اسٹور ہوجاتاہے، اور آہستہ آہستہ پگھل کر دریاؤں میں گرتاہے، جب کہ سمندر کا پانی عموماً نہ تو پینے کھانے میں استعمال کیا جاتاہے، نہ ہی کپڑے وغیرہ دھوئے جاتے ہیں،  اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ بارش کے پانی کا بطورِ نعمت ذکر فرمایا۔

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ  بارش کا پانی ظاہراً وباطناً ہر طرح کی آمیزش اور ہر گندگی سے پاک و صاف ہوتاہے، اس میں کسی قسم کے جراثیم یا نقصان دہ مادے موجود نہیں ہوتے،  اور  اس سے پاکی و صفائی کا حصول سمندر کے آبِ شور کی نسبت آسان بھی ہوتاہے، اور میل کچیل کا ازالہ بھی نسبتاً سہل ہوتاہے؛ لہٰذا یہ پانی نہ صرف یہ کہ خود پاک ہے، بلکہ پاک کرنے والا بھی ہوتاہے، اس پانی سے انسان،  حیوان اور دیگر چیزوں کی زندگی اور بقا وابستہ ہے، اس لیے اسے ’’پاک اور پاک کرنے والا پانی ‘‘ قرار دیا گیا ہے۔

سورۂ  فرقان کی آیت نمبر 48 کے ذیل میں مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

’’ طهور  کا لفظ عربی زبان میں مبالغہ کا صیغہ ہے،  طہور اس کو کہا جاتا ہے خود بھی پاک ہو اور دوسری چیزوں کو بھی اس سے پاک کیا جاسکے۔ حق تعالیٰ نے پانی کو یہ خاص صفت عطا فرمائی ہے کہ جیسے وہ خود پاک ہے اس سے دوسری ہر قسم کی نجاست حقیقی و معنوی کو بھی دور کیا جاسکتا ہے۔ اور جس پانی کو آدمی استعمال کرتے ہیں وہ عموماً وہی ہے جو آسمان سے نازل ہوتا ہے، کبھی بارش کی صورت میں، کبھی برف اور اولے کی صورت میں،  پھر وہ ہی پانی پہاڑوں کی رگوں کے ذریعہ قدرتی پائپ لائن کی صورت میں ساری زمین پر پھیلتا ہے جو کہیں خود بخود چشموں کی صورت میں نکل کر زمین پر بہنے لگتا ہے،  کہیں زمین کھود کر کنویں کی صورت میں نکالا جاتا ہے، یہ سب پانی اپنی ذات سے پاک اور دوسری چیزوں کو پاک کرنے والا ہے اس پر قرآن و سنت کی نصوص بھی ناطق ہیں اور امت کا اجماع بھی۔

یہ پانی جب تک کثیر مقدار میں ہو، جیسے تالاب، حوض، نہر کا پانی اس میں کوئی نجاست بھی گر جائے تو ناپاک نہیں ہوتا اس پر بھی سب کا اتفاق ہے بشرطیکہ پانی میں نجاست کا اثر ظاہر نہ ہو اور اس کا رنگ، ذائقہ، بو متغیر نہ ہو، لیکن تھوڑا پانی ہو اور اس میں نجاست گر جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟ اس مسئلہ میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے اسی طرح پانی کی کثیر و قلیل کی مقدار معین کرنے میں اقوال مختلف ہیں ۔ تفسیر مظہری اور قرطبی میں اس جگہ پانی سے متعلق تمام مسائل تفصیل کے ساتھ لکھے ہیں اور یہ مسائل عام کتب فقہ میں بھی مذکور ہیں اس لیے یہاں نقل کرنے کی ضرورت نہیں‘‘۔ (معارف القرآن 6/484)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200419

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں