بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

باجماعت نماز میں مقتدیوں کی رعایت رکھنے کا حکم


سوال

امام صاحب کو فرض نماز میں مقتدیوں کا خیال رکھنا چاہیے یا نہیں؟ میرے امام صاحب عشاء کی نمازطویل پڑھاتے ہیں بسا اوقات 18 منٹ تک  پڑھاتے ہیں، یہ کہاں تک درست ہے؟

جواب

شریعتِ مطہرہ میں باجماعت نمازمیں امام کے لیے کچھ ہدایات دی گئی ہیں۔من جملہ ان ہدایات کے ایک ہدایت نمازمیں قرأت کے سلسلہ میں بھی ہے۔فقہاءِ کرام نے احادیث کی روشنی میں فرض نمازوں میں مسنون قرأت کی تقسیم یوں کی ہے:
فجراورظہرمیں طوالِ مفصل یعنی سورۂ  حجرات سے سورۂ  بروج تک کی سورتیں یااتنی مقدارکی قرأت ہو۔ عصراورعشاء میں اوساطِ مفصل یعنی سورۂ  بروج سے سورۂ بینہ تک کی سورتیں پڑھی جائیں اورمغرب میں قصارِ مفصل یعنی سورۂ  زلزال سےاخیرتک  کی سورتوں میں سے تلاوت کی جائے۔مسنون قرأت کے اہتمام کے ساتھ اس بات کا ضرور خیال رکھاجائے کہ نمازہلکی پھلکی ہواورمقتدیوں پربھاری نہ ہو۔ اورقرأت کرنے کااندازبھی ایساہوکہ مسنون قرأت کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ وقت خرچ نہ ہو۔

نمازبہت زیادہ طویل پڑھانایامقتدیوں کی رعایت نہ رکھنا امامت کے آداب کے خلاف ہے۔احادیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ کامل اورہلکی نمازپڑھایاکرتے تھے، نیزبسااوقات مقتدیوں کی رعایت کی بنا پرانتہائی مختصرسورتیں پڑھنا بھی آپﷺ سے ثابت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ائمہ کو بھی یہ ہدایت ہے کہ نمازطویل نہ پڑھائیں؛ کیوں کہ نمازیوں میں بعض ضعیف، کم زور اورحاجت مندبھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ ایک صحابی (رضی اللہ عنہ)نے طویل نمازپڑھائی، (اور عشاء کی نماز میں سورہ بقرہ کی تلاوت شروع کردی) مقتدیوں میں سے ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت تنبیہ فرمائی اور ناراضی کااظہارفرمایا۔

اسی بنا پرفقہاءِ کرام نے بھی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ امام کو نمازمیں تخفیف سے کام لینا چاہیے، اورمقتدیوں کی رعایت رکھنالازم ہے؛ لہذا مذکورہ امام صاحب کومذکورہ امور کو سامنے رکھتے ہوئے مسنون قراءت کے ساتھ نمازیوں کی حالت کا خیال رکھنا چاہیے، اتنی طویل نماز نہیں پڑھانی چاہیے کہ لوگوں کے لیے گرانی کا باعث ہو، حکمت کے ساتھ انہیں بتادینا چاہیے، ایسا انداز نہ اختیار کیا جائے جس سے مسجد کے نظم میں خلل ہو۔
حوالہ جات درج ذیل ہیں :

1- "عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ لاَ أَكَادُ أُدْرِكُ الصَّلاَةَ مِمَّا يُطَوِّلُ بِنَا فُلاَنٌ، فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْ يَوْمِئِذٍ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ مُنَفِّرُونَ! فَمَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ؛ فَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ". (صحیح البخاري،کتاب العلم، باب الْغَضَبِ فِي الْمَوْعِظَةِ وَالتَّعْلِيمِ إِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ، ج:1/19، ط:قدیمي کتب خانه کراچي)

ترجمہ:حضرت ابومسعودانصاری سے منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے (آکر) کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ہو سکتا ہے کہ میں نماز (جماعت کے ساتھ) نہ پاسکوں؛ کیوں کہ فلاں شخص ہمیں (بہت) طویل نماز پڑھایا کرتا ہے۔  ابومسعود کہتے ہیں کہ میں نے نصیحت کرنے میں اس دن سے زیادہ کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غصہ میں نہیں دیکھا،  آپ ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! تم ایسی سختیاں کر کے لوگوں کو دین سے نفرت دلاتے ہو، دیکھو!  جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے اسے چاہیے کہ (قراء ت میں) تخفیف کرے؛ اس لیے کہ مقتدیوں میں مریض بھی ہوتے ہیں اور کم زور بھی ہوتے ہیں اور ضرورت والے بھی ہوتے ہیں۔

2- "عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ؛ فَإِنَّ مِنْهُمُ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالْكَبِيرَ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ". (صحیح البخاري،کتاب الصلاة، باب إِذَا صَلَّى لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ، 1/97، ط:قدیمي کتب خانه کراچي)

ترجمہ:حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  جب کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے تخفیف کرنا چاہیے؛ کیوں کہ مقتدیوں میں کم زور اور بیمار اور بوڑھے سب ہی ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی اپنے نماز پڑھے تو جس قدر چاہے طول دے۔

3- "عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي لأَتَأَخَّرُ عَنِ الصَّلاَةِ فِي الْفَجْرِ مِمَّا يُطِيلُ بِنَا فُلاَنٌ فِيهَا، فَغَضِبَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم مَا رَأَيْتُهُ غَضِبَ فِي مَوْضِعٍ كَانَ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَمَنْ أَمَّ النَّاسَ فَلْيَتَجَوَّزْ؛ فَإِنَّ خَلْفَهُ الضَّعِيفَ وَالْكَبِيرَ وَذَا الْحَاجَة". (صحیح البخاري،کتاب الصلاة، باب مَنْ شَكَا إِمَامَهُ إِذَا طَوَّلَ، 1/97،98، ط:قدیمي کتب خانه کراچي)

ترجمہ:حضرت ابومسعود روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ! اللہ کی قسم میں صبح  کی نماز سے صرف فلاں شخص کے باعث رہ جاتا ہوں؛ کیوں کہ وہ نماز میں طول دیتا ہے، پس میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ غضب ناک نہیں دیکھا، اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں کچھ لوگ آدمیوں کو عبادت سے نفرت دلاتے ہیں؛ لہذا جو شخص تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے،  سو اس کو ہلکی نماز پڑھانا چاہیے؛ کیوں کہ مقتدیوں میں ضعیف اور بوڑھے اور صاحبِ حاجت سب ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔

4- "عن جابر أنه قال: صلّى معاذ بن جبل الأنصاري لأصحابه العشاء، فطول عليهم، فانصرف رجل منّا فصلّى، فأخبر معاذ عنه، فقال: إنه منافق. فلمّا بلغ ذلك الرجل دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبره ما قال معاذ، فقال له النبى صلى الله عليه وسلم: « أتريد أن تكون فَتّانَاً يا معاذ! إذا أمّمت الناس فاقرأ بـ {الشمس وضحاها}، و {سبح اسم ربك الأعلى} ، {واقرأ باسم ربك} ، {والليل إذا يغشى} »". (الصحیح لمسلم، باب القرأة في العشاء،1/187، ط:قدیمي کتب خانه کراچي)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو عشاء کی نماز لمبی پڑھائی،  ہم میں سے ایک آدمی نے علیحدہ نماز ادا کی،  معاذ کو اس کی خبر دی گئی تو انہوں نے کہا کہ وہ منافق ہے،  جب اس آدمی کو خبر پہنچی تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر معاذ (رضی اللہ عنہ) کی بات بتائی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کیا تم فتنہ پرور بننا چاہتے ہو! اے معاذ !جب تم لوگوں کو نماز پڑھاؤ تو (الشَّمْسِ وَضُحَاهَا ، سَبِّحْ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی ، اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ، وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَی) کے ساتھ نماز پڑھا کرو۔

5- "عن أنس : أن النبي صلى الله عليه و سلم كان أخفّ الناس صلاة في تمام". (سنن النسائي، ماعلی الإمام من التخفیف،کتاب الصلاة، 1/132، ط:قدیمي کتب خانه کراچي)

ترجمہ:حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے ہلکی اور  کامل نماز پڑھا کرتے۔

6- "عن أبيه أبي قتادة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إني لأقوم في الصلاة أريد أن أطول فيها فأسمع بكاء الصبي فأتجوز في صلاتي؛ كراهية أن أشق على أمه". (صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب من أخفّ الصلاة عندبکاء الصبي، 1/98، ط:قدیمي کتب خانه کراچي)

ترجمہ:عبداللہ بن ابی قتادہ انصاری اپنے والد ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اس میں طول دوں،  مگر بچے کے رونے کی آواز سن کر میں اپنی نماز میں تخفیف کر دیتا ہوں، اس بات کو برا سمجھ کر کہ اس کی ماں پر سختی کروں۔

7- "عن أنس بن مالك يقول: ما صليت وراء إمام قط أخفّ صلاة ولا أتمّ من النبي صلى الله عليه وسلم، وإن كان ليسمع بكاء الصبي فيخفف؛ مخافة أن تفتن أمه". [صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب من أخفّ الصلاة عندبکاء الصبي، 1/98، ط:قدیمي کتب خانه کراچي)

ترجمہ: انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ میں نے کسی امام کے پیچھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہلکی اور کامل نماز نہیں پڑھی اور بے شک آپ بچے کا گریہ سن کر اس خوف سے کہ اس کی ماں پریشان ہوجائے گی نماز کو ہلکا کردیتے تھے۔

فتح القدیرمیں ہے:

"(قوله: وتطويل الصلاة) أي وكره للإمام تطويلها؛ للحديث: "إذا أمّ أحدكم الناس فليخفف". (البحرالرائق ، 3/406، بیروت)

ترجمہ:نمازطویل کرنا: یعنی امام کے لیے نماز کو طویل کرنا مکروہ ہے؛ اس حدیث کی بنا پر: ’’جب تم میں سے کوئی لوگوں کونمازپڑھائے اسے تخفیف کرنا چاہیے۔

حضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی شہیدؒ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریرفرماتے ہیں:

’’عنوان:اتنی لمبی نماز نہ پڑھائیں کہ مقتدی تنگ ہوجائیں.  [آپ کے مسائل اوران کاحل،جلدسوم،صفحہ458،459،ط:مکتبہ لدھیانوی]

س… ہمارے علاقے کی مسجد کے امام صاحب عام نمازوں میں اتنی طویل قرأت پڑھتے ہیں کہ بعض اوقات بوڑھے نمازی لڑکھڑاکر گر پڑتے ہیں۔ بعض دیگر مقتدی درمیان میں بیٹھ جاتے ہیں، رُکوع اور سجود اتنے طویل ہوتے ہیں کہ بعض مقتدی بیس سے تیس بار تک تسبیحات پڑھتے ہیں، تشہد اور قعدے میں اتنی دیر لگتی ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ امام صاحب سوگئے ہیں یا پھر خدانخواستہ ․․․․․․۔ از راہِ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں ارشاد فرمائیے کہ: امامت کے بارے میں کیا اَحکام ہیں؟

ج… آپ کے امام صاحب صحیح نہیں کرتے! امام کو چاہیے کہ نماز میں مقتدیوں کی رعایت کرے اور اتنی لمبی نماز نہ پڑھائے کہ لوگ تنگ ہوجائیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص امام ہو، وہ ہلکی نماز پڑھائے؛ کیوں کہ مقتدیوں میں کوئی کم زور ہوگا، کوئی بیمار ہوگا، کوئی حاجت مند ہوگا۔ ایک اور حدیث میں حکم ہے کہ جماعت میں جو سب سے کم زور آدمی ہو اس کی رعایت کرتے ہوئے نماز پڑھائے‘‘۔فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

جب مقتدیوں کو حرج ہو تو امام کے لیے باجماعت نماز میں مقدارِ مسنون سے زائد تلاوت کرنا مکروہ تحریمی ہے


فتوی نمبر : 144105200641

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں