بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بائیں ہاتھ سے جانور ذبح کرنا


سوال

قربانی کا جانور ایسے شخص سے ذبح کروانا جو بائیں ہاتھ سے ذبح کرتا ہو، کیا درست ہے ؟

جواب

رسول اللہ ﷺ نیک اور اچھے کاموں کی ابتدا دائیں جانب سے فرماتے تھے،  نیز ایسے امور کےلیے دائیں ہاتھ استعمال فرماتے تھے، اس لیے علماء نے دائیں ہاتھ سے ذبح کو سنت قرار دیا ہے، لہذا بلاکسی عذر کے بائیں ہاتھ سے ذبح کرنا خلافِ سنت ہے۔البتہ اگر کوئی عذر ہو اور دائیں ہاتھ سے ذبح کی وقتی کوئی صورت ممکن نہ ہو یعنی کوئی دوسرافرد  دائیں ہاتھ سے ذبح کرنے والا بسہولت میسر نہ ہوتو ایسی صورت میں بائیں ہاتھ سے ذبح کرنا یا ذبح کروانا جائز ہے اور ذبیحہ حلال ہے۔(فتاوی محمودیہ 24/112-آپ کے مسائل اور ان کا حل /451)

بخاری شریف میں ہے :

"عن عائشة ، قالت : كان النبي صلى الله عليه وسلم يحب التيمن ما استطاع في شأنه كله في طهوره وترجله وتنعله." (1/116)

ترجمہ :’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم حتی الامکان اپنے تمام کاموں کو سیدھے ہاتھ سے شروع کرنا محبوب رکھتے تھے اور (مثلاً) اپنی طہارت میں، اپنا جوتا پہننے میں‘‘۔

اس حدیث میں اچھے کاموں کو داہنے ہاتھ سے شروع کرنے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بارے میں اسے پسند فرماتے اور عزیز رکھتے تھے کہ جہاں تک اپنا بس چلے تمام کام داہنے ہاتھ سے انجام دیے  جائیں،  چنانچہ لفظ ’’ما استطاع‘‘ (حتی الامکان) سے اسی محافظت اور تاکید کی طرف اشارہ ہے...ہر وہ چیز جو از قبیلِ بزرگی ہوتی تھی اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ سے شروع کرتے تھے .... اسی طرح جو چیز از قبیلِ بزرگی نہیں ہیں ان کو بائیں طرف سے شروع کرنا مستحب ہے، مثلاً بیت الخلا (یعنی بیت الخلا میں پہلے بایاں پیر رکھنا، بازار میں جانا، مسجد سے نکلنا ، ناک سنکنا، تھوکنا، استنجا کرنا اور کپڑے اور جوتے اتارنا یا ایسے ہی دوسرے کام، ان کاموں کو بائیں طرف سے شروع کرنے میں ایک لطیف اور پر حقیقت نکتہ بھی ہے یہ کہ ایسی چیزوں کی ابتدا بائیں طرف سے کرنے کی وجہ دائیں طرف کی تکریم و احترام کا مظاہرہ ہوتا ہے، مثلاً جب کوئی آدمی مسجد سے نکلتے وقت پہلے بایاں قدم باہر نکالے گا تو دائیں قدم کی تکریم ہوئی بایں طور کہ دایاں قدم محترم جگہ میں باقی رہا۔ اسی پر دوسری چیزوں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے، یہی وجہ کہ انسان کے ہم راہ جو دو فرشتے ہوتے ہیں ان میں سے دائیں ہاتھ کا فرشتہ دائیں طرف کی فضیلت و احترام کی بنا پر بائیں ہاتھ کے فرشتے پر شرف و فضیلت رکھتا ہے، نیز اسی نقطہ کے پیش نظر کہا جاتا ہے کہ دائیں طرف کا ہم سایہ بائیں طرف کے ہم سایہ پر مقدم ہے‘‘۔ (مظاہر حق) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200436

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں