بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایکسیڈنٹ میں قتل کا کیا حکم ہے؟


سوال

ایکسیڈنٹ میں قتل کا کیا حکم ہے؟ نیز کفارہ میں روزوں کے بدلے فدیہ دیا جاسکتا ہے؟

جواب

ڈرائیور اگر غلطی سے غیر عمدی طور پر ایکسیڈنٹ کے ذریعہ اپنی سواری کے علاوہ کسی دوسرے کو قتل کردے تو یہ قتلِ خطا ہے اور  اس کی وجہ سے کفارہ اور دیت دونوں لازم ہوں گے  (بشرط یہ کہ ایکسیڈنٹ ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہو)۔

کفارے کے طور پر اس ڈرائیور کو مسلسل ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے۔ البتہ دیت کی ادائیگی اس ڈرائیور کی "عاقلہ" کے ذمہ ہے۔ عاقلہ سے مراد وہ جماعت، تنظیم یا کمیونٹی ہے جس کے ساتھ اس ڈرائیور کا تناصر (یعنی باہمی تعاون) کا تعلق ہو، یہ دیت تین سال میں ادا کی جائے گی، سونے کی صورت میں اگر دیت ادا کی جائے تو دیت کی مقدار ایک ہزار دینار اور درہم  کے اعتبار سے دس ہزار (۱۰،۰۰۰ ) درھم ہے جس کا اندازا  جدید پیمانے سے  30.618  کلوگرام چاندی یا اس کی قیمت ہے۔

کفارے  میں مسلسل ساٹھ روزے رکھنا قاتل پر لازم ہو گا،  کفارہ کے روزے میں اگرمرض کی وجہ سے تسلسل باقی نہ رہے تو از سر نو رکھنے پڑیں گے، ہاں! عورت کے حیض کی وجہ سے تسلسل ختم نہیں ہو گا، یعنی اگر کسی عورت سے قتل ہو گیا  اور وہ 60 روزے کفارہ میں رکھ رہی ہے تو  60 روزے رکھنے کے دوران ماہ واری کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، وہ ماہ واری سے فراغت کے بعد 60 روزوں کو جاری رکھے گی۔

اور کفارہ میں روزے رکھنا ہی لازم ہو گا، ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا اس میں حکم نہیں ہے، البتہ اگر زیادہ عمر ہونے یا بیمار ہونے کی وجہ سے روزے رکھنے کی بالکل قدرت نہ ہو تو استغفار کرتا رہے اور موت تک نہ رکھ سکے تو فدیہ ادا کرنے کی وصیت کرجائے، زندگی میں فدیہ ادا کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام (10/ 330):

"(قال: ومن قاد قطاراً فهو ضامن لما أوطأ)، فإن وطئ بعير إنساناً ضمن به القائد والدية على العاقلة؛ لأن القائد عليه حفظ القطار كالسائق وقد أمكنه ذلك وقد صار متعدياً بالتقصير فيه، والتسبب بوصف التعدي سبب للضمان، إلا أن ضمان النفس على العاقلة فيه وضمان المال في ماله (وإن كان معه سائق فالضمان عليهما)؛ لأن قائد الواحد قائد للكل، وكذا سائقه لاتصال الأزمة، وهذا إذا كان السائق في جانب من الإبل، أما إذا كان توسطها وأخذ بزمام واحد يضمن ما عطب بما هو خلفه، ويضمنان ما تلف بما بين يديه؛ لأن القائد لايقود ما خلف السائق لانفصام الزمام، والسائق يسوق ما يكون قدامه".

 ’’ الدر المختار مع الشامیة ‘‘ :

"الأصل أن المرور في طریق المسلمین مباح بشرط السلامة فیما یمکن الاحتراز عنه ، ضمن الراکب في طریق العامة ما وطئت أو خطبت بیدها أو صدمت". (۱۰/۲۱۸، باب جنایة البهیمة والجنایة علیها)

’’الفقه الإسلامي وأدلته‘‘:

"أما إذا کان المخطئ أحد المتصادمین کان الضمان علیه باتفاق الفقهاء". (۷/۵۷۹۰)

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح میں ہے:

"قوله: "لاتجب عليه الفدية"؛ لأنه يخالف غيره في التخفيف لا في التغليظ، كذا في الشرح. و قال في الدر في وجوب الفدية على الفاني: إذ الصوم أصل بنفسه، و خوطب بأدائه حتى لو لزمه الصوم لكفارة يمين أو قتل ثم عجز لم تجز الفدية؛ لأن الصوم هنا بدل عن غيره."

( كتاب الصوم، فصل في العوارض، ٦٨٨، ط: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

الدر المختار مع حاشية ابن عابدين میں ہے:

"(وللشيخ الفاني العاجز عن الصوم الفطر ويفدي) وجوبًا ولو في أول الشهر وبلا تعدد فقير كالفطرة لو موسرًا وإلا فيستغفر الله، هذا إذا كان الصوم أصلًا بنفسه وخوطب بأدائه، حتى لو لزمه الصوم لكفارة يمين أو قتل ثم عجز لم تجز الفدية؛ لأن الصوم هنا بدل عن غيره، (قوله: حتى لو لزمه الصوم إلخ) تفريع على مفهوم قوله: أصلًا بنفسه، وقيد بكفارة اليمين والقتل احترازًا عن كفارة الظهار والإفطار إذا عجز عن الإعتاق لإعساره وعن الصوم لكبره، فله أن يطعم ستين مسكينًا لأن هذا صار بدلًا عن الصيام بالنص والإطعام في كفارة اليمين ليس ببدل عن الصيام بل الصيام بدل عنه، سراج. وفي البحر عن الخانية وغاية البيان: وكذا لو حلق رأسه وهو محرم عن أذى ولم يجد نسكا يذبحه ولا ثلاثة آصع حنطة يفرقها على ستة مساكين وهو فان لم يستطع الصيام فأطعم عن الصيام لم يجز لأنه بدل (قوله لم تجز الفدية) أي في حال حياته بخلاف ما لو أوصى بها كما مر تحريره."

 ( كتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم، ٢ / ٤٢٧، ط: دار الفكر)

 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144104200488

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں