بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک ہی مسجد میں دوسری یا تیسری جماعت کرانا


سوال

ایک مسجد میں دوسری اور تیسری مرتبہ جماعت کرانے کا کیا حکم ہے؟

جواب

اگر کسی مسجد میں مندرجہ ذیل چار شرائط ہیں تو ایک دفعہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے بعد دوسری دفعہ جماعت کرانا مکروہ تحریمی ہے، وہ چار شرائط یہ ہیں:

1۔ محلہ کی مسجد ہو، عام راستہ کی مسجد نہ ہو۔

2۔ پہلی جماعت بلند آواز سے اذان اور اقامت کہہ کر پڑھی گئی ہو۔

3۔ پہلی جماعت محلہ کے ایسے لوگوں نے ادا کی ہے جن کو اس مسجد کے انتظامات کا اختیار حاصل تھا۔

4۔ دوسری جماعت بھی اسی ہیئت اور اہتمام سے ادا کی جائے جس ہیئت اور اہتمام سے پہلی جماعت ادا کی گئی ہے۔

اگر ان چار شرائط میں سے کوئی ایک شرط نہ پائی جائے تو دوسری جماعت مکروہ نہیں، مثلًا محلہ کی مسجد نہ ہو، بلکہ عام راستے کی مسجد ہے تو اس میں دوسری ، بلکہ تیسری یا چوتھی جماعت بھی مکروہ نہیں، یا مسجد میں پہلی جماعت ان لوگوں نے پڑھی جو اس محلہ میں نہیں رہتے یا شرعی مسجد کی حدود سے باہر دوسری تیسری جماعت کرائی گئی تو جماعت مکروہ نہیں ہوگی۔

الدر المختار مع رد المحتار (1/ 552)

'' ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن۔

و في الرد: (قوله: ويكره) أي تحريماً؛ لقول الكافي: لا يجوز، والمجمع: لا يباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي، (قوله: بأذان وإقامة إلخ) عبارته في الخزائن: أجمع مما هنا ونصها: يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة بأذان وإقامة، إلا إذا صلى بهما فيه أولا غير أهله، لو أهله لكن بمخافتة الأذان، ولو كرر أهله بدونهما أو كان مسجد طريق جاز إجماعا؛ كما في مسجد ليس له إمام ولا مؤذن ويصلي الناس فيه فوجاً فوجاً، فإن الأفضل أن يصلي كل فريق بأذان وإقامة على حدة، كما في أمالي قاضي خان اهـ ونحوه في الدرر، والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعاً. اهـ. ثم قال في الاستدلال على الإمام الشافعي النافي للكراهة ما نصه: ولنا «أنه عليه الصلاة والسلام كان خرج ليصلح بين قوم فعاد إلى المسجد وقد صلى أهل المسجد فرجع إلى منزله فجمع أهله وصلى»، ولو جاز ذلك لما اختار الصلاة في بيته على الجماعة في المسجد ولأن في الإطلاق هكذا تقليل الجماعة معنى، فإنهم لا يجتمعون إذا علموا أنهم لا تفوتهم.

وأما مسجد الشارع فالناس فيه سواء لا اختصاص له بفريق دون فريق اهـ ومثله في البدائع وغيرها، ومقتضى هذا الاستدلال كراهة التكرار في مسجد المحلة ولو بدون أذان؛ ويؤيده ما في الظهيرية: لو دخل جماعة المسجد بعد ما صلى فيه أهله يصلون وحداناً، وهو ظاهر الرواية اهـ وهذا مخالف لحكاية الإجماع المارة ··· وقدمنا في باب الأذان عن آخر شرح المنية عن أبي يوسف أنه إذا لم تكن الجماعة على الهيئة الأولى لا تكره وإلا تكره، وهو الصحيح، وبالعدول عن المحراب تختلف الهيئة، كذا في البزازية انتهى. وفي التتارخانية عن الولوالجية: وبه نأخذ''۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200122

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں