بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک ہی شخص کا بیک وقت بائع اور مشتری بننا


سوال

زید نے عمر کو پانچ لاکھ روپے کاروبار کے لیے دیے، عمر کا مرغی اور انڈے کابہت بڑا کام ہے،  اس نے ہزاروں دیسی مرغیوں کافارم لگایا ہواہے، عمر نے کہا کہ بھائی  میں آپ کے ساتھ اس طرح کا کام کروں گا کہ چوں کہ میری مرغیوں کے روزانہ  انڈے آتے ہیں اوراس کاروزانہ الگ مارکیٹ ریٹ نکلتا ہے تو جس قیمت پر میں مارکیٹ کو دیتا ہوں اس سے کچھ کم قیمت پر آپ کے پیسے کے مطابق انڈوں کی مقدار کو پہلے آپ کے نام کروں گا، یہ تصور کرتے ہوئے  کہ یہ مقدار میں نے عمر بھائی  کے دیے ہوئے پیسے کے عوض اس کے ہاتھ بیچ دیا، اس کے بعد پھر آپ کی طرف سے وکیل کے طور پر میں بیچوں گا تو جو نفع یا نقصان ہوگااس بیچنے میں وہ آپ کا ہوگا؟

جواب

زید اور عمر کے درمیان شرکت کی مذکورہ بالا صورت چوں کہ شرعی اصولوں کے مطابق نہیں، اس لیے یہ صورت جائز نہیں ہے، البتہ جواز کی صورت یہ ہے کہ :

زید ٗعمر کے کاروبار میں نفع ونقصان دونوں کی بنیاد پر شراکت داری اختیار کرے، چوں کہ عمر کا سرمایہ پہلے سے موجود ہے؛ لہذا اب زید ،عمر کے ساتھ اس کے کاروبار میں جب شریک ہوگا تو نفع ونقصان دونوں میں شراکت داری کرے گا۔

باہمی طور پر سرمایہ اور عمل کے بقدر ہرایک کے لیے کاروبار میں سے نفع کے حصص متعین کردیے جائیں، کسی ایک فریق کے لیے نفع زیادہ اور دوسرے کے لیے کم بھی مقرر کرسکتے ہیں (مثلاً کسی ایک کے لیے نفع کا ساٹھ  فیصد دوسرے کے لیے چالیس فیصد وغیرہ)، البتہ متعین نفع(مثلاً ہر مہینے  پانچ یا دس ہزار روپے ) مقرر کر کے شراکت داری کرنا شرعاً ممنوع ہے۔ نیز نقصان میں بھی سرمایہ کے بقدرشریک ہوں،  پھر کاروبار میں جو نفع ہو وہ طے شدہ حصص کے مطابق آپس میں تقسیم کرلیں تو جائز ہوگا۔ لیکن مذکورہ بالا صورت میں ایک ہی فرد یعنی عمر خود بائع بھی بن رہاہے اور خود مشتری بھی،جب کہ سامان پر زید کا قبضہ موجود ہی نہیں، اس لیے یہ صورت جائز نہیں ہے۔

نیز شراکت داری میں یہ صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ عمر اپنے چلتے کاروبار اور سابقہ لگے ہوئے سرمائے میں ہی زید کا سرمایہ بھی شامل کرکے باہم معاہدہ کرلے۔ اور یہ صورت بھی اختیار کی جاسکتی ہے کہ زید کے سرمائے کے ساتھ  عمر اپنا سرمایہ شامل کیے بغیر خالص زید کے سرمائے سے الگ سودا کرے، اور اس کا حساب الگ رکھے، اور مضاربت کے اصول پر اس سودے کے نفع میں فیصدی تناسب سے دونوں کی شرکت کا معاہدہ ہوجائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200959

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں