بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مسجد میں بیک وقت متعدد جماعت کرانا


سوال

ایک مسجد  میں ایک وقت میں کئی جماعت ادا کرنا کیسا ہے؟

جواب

مسجد میں بیک وقت فرض نماز کی ایک سے  زیادہ جماعتیں کرانا مکروہِ تحریمی ہے، اس سے  لوگوں کے دلوں سے جماعت کی اہمیت وعظمت ختم ہوجائے گی، مقصدِ جماعت بھی فوت ہوگا اور اختلاف و انتشار بھی لازم آئے گا،  اور  اگر یکے بعد دیگرے جماعت کرائیں تو  اگر وہ مسجد ایسی ہے کہ اس میں پنج وقتہ نماز کے لیے امام، مؤذن مقرر  ہیں اور اس مسجد کے نمازی معلوم ہیں تو بھی ایک سے زائد جماعت کرانا مکروہِ تحریمی ہے، اس  سے پہلی جماعت کے افراد  بھی کم ہوجائیں گے،  اور پہلی جماعت سے صورتاً اعراض بھی لازم آئے گا،  جب کہ شریعتِ مطہرہ  میں  جماعت کے ساتھ  نماز پڑھنے  کی بڑی فضیلت اور تاکید آئی ہے، لہذا یہ عمل ناجائز ہے۔

حدیثِ مبارک  میں ہے:

 "عن أبي هريرة: أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «والذي نفسي بيده لقد هممت أن آمر بحطب، فيحطب، ثم آمر بالصلاة، فيؤذن لها، ثم آمر رجلاً فيؤمّ الناس، ثمّ أخالف إلى رجال، فأحرق عليهم بيوتهم، والذي نفسي بيده لو يعلم أحدهم، أنه يجد عرقًا سمينًا، أو مرماتين حسنتين، لشهد العشاء»". (صحیح البخاري، 1/ 131،  کتاب الأذان، باب وجوب صلاة الجماعة، ط: دار طوق النجاة)

فتاوی شامی میں ہے:

"ويكره تكرار الجماعة بأذان وإقامة في مسجد محلة لا في مسجد طريق أو مسجد لا إمام له ولا مؤذن.

(قوله: ويكره) أي تحريمًا لقول الكافي: لايجوز، والمجمع: لايباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي". (1/ 552، کتاب الصلوٰۃ، باب الامامۃ، مطلب  فی تکرار الجماعۃ فی المسجد، ط: سعید)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200975

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں