بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک مرتبہ جنازہ کی نماز ہوجانے کے بعد کیا جنازہ کی نماز دوبارہ پڑھی جا سکتی ہے؟


سوال

ایک میت کے کتنے جنازے جائِز ہیں؟  یعنی کیا ایک سے زائِد جنازے ہوسکتے ہیں؟  اگر اُس کےشرعی ولی، بیٹے​ یا تعلُق والے زیادہ ہوں، کُچھ ایک جگہ اور کُچھ دوسری جگہ ہوں  تو کیا حکم ہے؟ اور یہ لازمی بتائیں کے پہلا جنازہ جس میں کوئی ایک ولی بھی ہو، اس کے بعد دوسرے  جنازے(جس میں کوئی دوسرا ولی یا بیٹا بھی شامل ہو) کا شرعی حکم کیا ہوگا؟  یعنی دو جنازوں کی صورت میں دوسرے کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

ایک دفعہ حاکمِ وقت کی اجازت سے یا اولیاءِ میت میں سے کسی ایک کی اجازت سے جنازہ کی نماز ادا ہو جانے کے بعد دوبارہ جنازہ کی نماز ادا کرنے کی شرعاً اجازت نہیں، چاہے دوسرے اولیاء نے نماز دا کی ہو یا نہ کی ہو، البتہ اگر پہلی مرتبہ جنازے کی نماز ولی کی اجازت و شرکت کے بغیر ہوئی ہو تو ایسی صورت میں میت کے ولی کو دوبارہ جنازہ کی نماز ادا کرنے کی اجازت ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَلَا يُصَلَّى عَلَى مَيِّتٍ إلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً وَالتَّنَفُّلُ بِصَلَاةِ الْجِنَازَةِ غَيْرُ مَشْرُوعٍ، كَذَا فِي الْإِيضَاحِ. وَلَا يُعِيدُ الْوَلِيُّ إنْ صَلَّى الْإِمَامُ الْأَعْظَمُ أَوْ السُّلْطَانُ أَوْ الْوَالِي أَوْ الْقَاضِي أَوْ إمَامُ الْحَيِّ؛ لِأَنَّ هَؤُلَاءِ أَوْلَى مِنْهُ وَإِنْ كَانَ غَيْرُ هَؤُلَاءِ لَهُ أَنْ يُعِيدَ، كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ. وَإِنْ صَلَّى عَلَيْهِ الْوَلِيُّ لَمْ يَجُزْ لِأَحَدٍ أَنْ يُصَلِّيَ بَعْدَهُ وَلَوْ أَرَادَ السُّلْطَانُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ فَلَهُ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ مُقَدَّمٌ عَلَيْهِ، وَلَوْ صَلَّى عَلَيْهِ الْوَلِيُّ وَلِلْمَيِّتِ أَوْلِيَاءُ أُخَرُ بِمَنْزِلَتِهِ لَيْسَ لَهُمْ أَنْ يُعِيدُوا، كَذَا فِي الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ. فَإِنْ صَلَّى غَيْرُ الْوَلِيِّ أَوْ السُّلْطَانِ أَعَادَ الْوَلِيُّ إنْ شَاءَ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ". ( كتاب الصلاة، الباب الحادي و العشرون في الجنائز، الْفَصْلُ الْخَامِسُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْمَيِّتِ، ١/ ١٦٣ - ١٦٤) 

مراقي الغلاح مع حاشية الطحطاويمیں ہے:

"فإن صلى غيره" أي غير من له حق التقدم بلا إذن ولم يقتد به "أعادها" هو "إن شاء" لعدم سقوط حقه وإن تأدى الفرض بها "ولا" يعيد "معه" أي مع من له حق التقدم "من صلى مع غيره" لأن التنفل بها غير مشروع  قوله: "فإن صلى غيره الخ" شمل ما إذا صلى عليه ولى القرابة وأراد السلطان أن يصلي عليه فله ذلك لأنه مقدم عليه كما في الجوهرة يعني إذا كان حاضرا وقت الصلاة ولم يصل مع الولي ولم يأذن لاتفاق كلمتهم على أنه لا حق للسلطان عند عدم حضوره نهر قوله: "بلا إذن ولم يقتد به" أما إذا أذن له أو لم يأذن ولكن صلى خلفه فليس له أن يعيد لأنه سقط حقه بالأذن أو بالصلاة مرة وهي لا تتكرر ولو صلى عليه الولي وللميت أولياء آخرون بمنزلته ليس لهم أن يعيدوا لأن ولاية الذي صلى متكاملة". ( حاشية الطحطاوي علي المراقي ،كتاب الصلاة، باب أحكام الجنائز، فصل بعد فصل، ص: ٥٩١)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(فَإِنْ صَلَّى غَيْرُهُ) أَيْ الْوَلِيِّ (مِمَّنْ لَيْسَ لَهُ حَقُّ التَّقْدِيمِ) عَلَى الْوَلِيِّ (وَلَمْ يُتَابِعْهُ) الْوَلِيُّ (أَعَادَ الْوَلِيُّ) وَلَوْ عَلَى قَبْرِهِ قُلْنَا: لَيْسَ لِمَنْ صَلَّى عَلَيْهَا أَنْ يُعِيدَ مَعَ الْوَلِيِّ لِأَنَّ تَكْرَارَهَا غَيْرُ مَشْرُوعٍ (وَإِلَّا) أَيْ وَإِنْ صَلَّى مَنْ لَهُ حَقُّ التَّقَدُّمِ كَقَاضٍ أَوْ نَائِبِهِ أَوْ إمَامِ الْحَيِّ أَوْ مَنْ لَيْسَ لَهُ حَقُّ التَّقَدُّمِ وَتَابَعَهُ الْوَلِيُّ (لَا) يُعِيدُ لِأَنَّهُمْ أَوْلَى بِالصَّلَاةِ مِنْهُ. (وَإِنْ صَلَّى هُوَ) أَيْ الْوَلِيُّ (بِحَقٍّ) بِأَنْ لَمْ يَحْضُرْ مَنْ يُقَدَّمُ عَلَيْهِ (لَا يُصَلِّي غَيْرُهُ بَعْدَهُ) وَإِنْ حَضَرَ مَنْ لَهُ التَّقَدُّمُ لِكَوْنِهَا بِحَقٍّ". (شامي، كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، مطلب تعظيم اولي الامر واجب، ٢/ ٢٢٢ - ٢٢٣) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201976

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں