بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک قبر میں دو میتوں کی تدفین· منزلہ قبریں بنانے کا حکم


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ آج کل شہر میں قبرستانوں میں جگہ ختم ہو چکی ہے جسکی وجہ سے بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ مزید یہ کہ شہر کے قبرستان میں زمین کی قبر بھی نہیں ملتی قبر پر منزل در منزل قبر بنائی جاتی ہے اور پھر اس کی قیمت بھی ۵۰، ۶۰، ہزار وصول کی جاتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے کچھ ایسے رشتہ داروں کی قبریں موجود ہیں جن کے انتقال کو ۵۰ سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ کیا ہم زمین کی قبر حاصل کرنے کیلیئے ان کی قبر میں اپنے نئے رشتہ داروں کو دفن کر سکتے ہیں جبکہ ان پرانے رشتہ داروں کی قبروں میں ہڈیاں بھی ختم ہو چکی ہیں۔ مگر سنگ مرمر کی چار دیواری کی وجہ سے ان قبروں کے پختہ نشان موجود ہیں۔ کچھ قبرستانوں میں ایسا بھی ہوتا ہے۔یا پھر ان پرانی قبروں پر منزل بنا لیں اور زمین کی قبر نہ ہو۔ دوسری طرف شہر سے باہر قبرستان میں دفنانے کی صورت میں قبر کی زیارت انتہائی مشکل ہو جاتی ہے۔ جبکہ اندرون شہر مہینے میں ایک یا دو دفعہ زیارت کر لی جاتی ہے۔

 

جواب

اگر قبر میں میت کی ہڈیاں بوسیدہ ہو کر مٹی ہو چکی ہوں تو اس قبر میں بوقت ضرورت دوسری میت کو دفنانا جائز ہے لیکن اگر قبر کی زمین کسی کی مملوکہ ہو تو اس سے اجازت ضروری ہے۔

قبر کے لیے زمین کی ظاہری سطح کو کم از کم انسان کی آدھی قد و قامت کے بقدر گہرا کھود کر  بنانا ضروری ہے، اس لیے زمین کے اوپر پہلے سے موجود پرانی قبر پر منزل بنا کر اس میں مردے کو رکھنا قبر میں دفنانا نہیں کہلائے گا، بل کہ دیوار میں چننا کہلائے گا،جو کہ تدفین کا مسنون طریقہ نہیں ، اس لیے ایساکرنا جائز نہیں ہے۔

 


فتوی نمبر : 143709200025

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں