میرے ایک دوست نے غصے میں آکر بیوی سے کہا کہ اگر میں اس گھر میں رہا تو تو مجھ پر طلاق ہوگی،صرف ایک طلاق کا ذکر ہے،اور مراد بھی ایک ہی تھا،اب وہ گھر میں رہ سکتا ہے؟
ان الفاظ کے کہنے کے بعد اگر شوہر اس گھر میں رہے گا تو ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی ،طلاق کے بعد عدت یعنی مکمل تین ماہواریاں گزرنے سے پہلے تک شوہر کو رجوع کرنے کا اختیار ہے، اگر شوہر تین ماہواری گزرنے سے پہلے رجوع کرلیتا ہے تو نکاح برقرار رہے گا اور آئندہ کے لیے شوہر کے پاس دو طلاق کا اختیار باقی رہ جائے گا، دوبارہ نئے سرے سے نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، لیکن اگر شوہر عدت گزرنے سے پہلے رجوع نہیں کرتا ہے تو عدت گزرتے ہی عورت بائن ہوجائے گی اور نکاح ٹوٹ جائے گا۔ اس صورت میں عدت کے ختم ہوتے ہی عورت کسی بھی جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہو گی۔
پھر اگر آپ دونوں ساتھ رہنا چاہیں تو دوبارہ نئے سرے سے دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا پڑے گا، اور آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار باقی رہ جائے گا۔
رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی سے کہے کہ میں آپ سے رجوع کرتا ہوں، یہ رجوعِ قولی کہلاتا ہے، یا شوہر بیوی کے ساتھ زوجین والے تعلقات قائم کرلے ، یہ رجوع فعلی کہلاتا ہے، لیکن رجوعِ فعلی کرنے کو فقہاء نے مکروہ قرار دیا ہے۔
قال في الهندیة:
"و إاذا أضافه إلی الشرط، وقع عقیبَ الشرط اتفاقاً، مثل أن یقول لامرأته: إن دخلت الدار، فأنت طالق".
(الفتاوی الهندیة: ۱/۴۸۸، الفصل الثالث في تعلیق الطلاق بکلمة إن و إذا و غیرها، (باب الأیمان في الطلاق، رشیدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012201145
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن