بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک شریک کا مشترکہ پلاٹ کو دیگر شرکاء کی اجازت کے بغیر بیچنے کا حکم


سوال

ایک شخص کے چار بھائی ہیں، ایک بڑا اور تین چھوٹے ہیں، مذکورہ شخص نے ایک پلاٹ بغیر اپنے بھائیوں کی رضامندی اور انہیں بتائے بغیر ہی بیچ ڈالا۔اب جب اس کے بھائی اس سے اس پلاٹ کے بارے میں پوچھتے ہیں تو انہیں کہتا ہے کہ وہ پلاٹ میں نے بیچ دیا ہے، تم اس کے بدلے مجھ سے دو دو لاکھ لے لو۔مذکورہ شخص پلاٹ بیچنے کا اقرار تو کرتا ہے، مگر کوئی ثبوت نہیں دیتا۔ مذکورہ صورت میں ان بھائیوں کا شرعی حق کیا ہے جب کہ اس پلاٹ کی موجودہ قیمت ۸۰ لاکھ ہے؟ سوال وراثت سے متعلق ہے۔

جواب

اگر مذکورہ پلاٹ سب بھائیوں کے درمیان بطورِ وراثت مشترکہ تھا اور اس شخص نے باقی بھائیوں کی اجازت کے بغیر وہ پلاٹ بیچ دیا ہے تو اس کا یہ فعل جائز نہیں تھا، البتہ اب اگر دیگر تمام بھائی اس بیع پر راضی ہوجائیں تب تو یہ بیع ٹھیک ہوجائے گی اور جتنے پیسوں کا یہ پلاٹ بیچا گیا ہے وہ پیسے سب بھائیوں میں برابر برابر تقسیم کیے جائیں گے۔

لیکن اگر باقی تمام بھائی کسی بھی وجہ سے اس بیع پر اپنی رضامندی کا اظہار نہ کریں تو یہ  بیع (سودا) فاسد ہے اور اس کا فسخ کرنا شرعاً لازم ہے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ پلاٹ بیچنے والے شخص نے جتنی رقم خریدار سے لی ہے وہ خریدار کو واپس کر کے مذکورہ پلاٹ واپس لے لے، خریدار پر بھی شرعاً لازم ہے کہ وہ اپنی رقم وصول کر کے پلاٹ واپس کردے اور اس میں پس و پیش سے کام نہ لے ، سودا فسخ ہونے کے بعد تمام ورثاء چاہیں تو سب کی رضامندی سے دوبارہ نئے سرے سے نئی قیمت  کے ساتھ اسی خریدار یا کسی دوسرے کو یہ پلاٹ بیچا جاسکتا ہے۔

لیکن اگر یہ پلاٹ واپس نہ مل سکا تو بیچنے والے شخص پر اس کا ضمان آئے گا، یعنی جس وقت یہ پلاٹ بیچا تھا اس وقت اس پلاٹ کی  مارکیٹ میں جو قیمت تھی اس قیمت کے اعتبار سے مذکورہ شخص تمام بھائیوں کو حصہ دے گا۔

  الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 302):

’’ولو كانت الدار مشتركةً بينهما، باع أحدهما بيتاً معيناً أو نصيبه من بيت معين، فللآخر أن يبطل البيع‘‘.

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 65):

’’فأما شركة الأملاك، فحكمها في النوعين جميعاً واحد، وهو أن كل واحد من الشريكين كأنه أجنبي في نصيب صاحبه، لا يجوز له التصرف فيه بغير إذنه؛ لأن المطلق للتصرف الملك أو الولاية، ولا لكل واحد منهما في نصيب صاحبه ولاية بالوكالة أو القرابة؛ ولم يوجد شيء من ذلك، وسواء كانت الشركة في العين أو الدين لما قلنا‘‘.

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 189):

’’الشريك إذا باع نصفاً معيناً من الدار المشتركة على وجه الشيوع بينه وبين شريكه الآخر فالبيع لا يجوز، فلو باع الشريك غرفةً معينةً من الدار المشتركة بينه وبين آخر إلى أجنبي فالبيع غير صحيح في حصة البائع ولا في حصة شريكه؛ لأن الغرفة التي بيعت ليست للبائع فقط بل للشريك الآخر شركة في كل جزء منها كما للأول. (بزازية) والظاهر أن البيع في أحد النصفين جائز، وفي الآخر موقوف على إجازة الشريك. (الشارح)‘‘.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200732

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں