بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک شریک کا دوسرے شریک کو مشترکہ چیز کرایہ پر دینے کا حکم


سوال

میں نے ایک دوست کے ساتھ  مل کر کاروبارکے  لیے گاڑی لی،   جس میں دونوں کا حصہ برابر تھا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد ہمارا جھگڑا ہو گیا؛  کیوں کہ وہ گاڑی میری مرضی کے خلاف استعمال کر رہا تھا؛ اس لیے میں  اس  سے شراکت داری سے الگ ہو گیا اور گاڑی اس کو اس شرط پر دے دی  کہ  اس میں میرا جو حصہ ہے میں اس کا تم سے  15000 ماہانہ کرایہ وصول کیا کروں گا اور گاڑی کی مرمت اور حادثے کی صورت میں گاڑی کا کام تم کرا کر دو گے۔ میرے ذمے صرف گاڑی کے انجن اور ٹائروں کا کام ہو گا۔ یعنی گاڑی کے ٹائر اور انجن کے کام پر جتنا خرچ آئے گا وہ ہم دونوں پر ہمارے حصے کے بقدر تقسیم ہو گا۔ اور  اس کے بدلے میں گاڑی سے میرا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ وہ گاڑی جیسے چاہے استعمال کر سکتا ہے اور اس سے جتنا چاہے کمائے وہ سب اس کا ہو گا،  کیا اس طرح کا معاہدہ کرنا یا کرایہ وصول کرنا جائز ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں آپ کا مشترکہ گاڑی اپنے دوست کو کرائے پر دینا اور اپنے حصہ  کا ماہانہ  15,000روپے کرایہ وصول کرنا جائز ہے؛ کیوں کہ ایک شریک کا دوسرے شریک کو  مشترکہ  مملوکہ چیز اجرت  پر  دینا  جائز   ہے۔

فتاوی تاتار خانیہ میں ہے:

"قال محمد رحمه اللّٰه تعالی: في رجل آجر نصف داره مشاعًا من أجنبي لم یجز، و إذا أجر من شریکه یجوز بلا خلاف في ظاهر الروایة، سواء کان مشاعًا یحتمل القسمة أو لایحتمل."

(الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱۵؍۱۲۴ رقم: ۲۲۴۰۳)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 143901200105

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں