قربانی کے شرکاء میں سے ایک شریک مر جائے اور ورثاء بھی اجازت نہیں دیتے اور باقی شرکاء کی استطاعت بھی نہیں تو کیا کیا جائے؟
واضح رہے کہ قربانی کے جانور کے ساتوں حصوں میں اللہ کی رضا کی نیت ہونا ضروری ہے، اگر ایک حصے میں بھی اللہ کی رضا کی نیت نہ ہو تو کسی بھی شریک کی قربانی نہیں ہوگی۔
صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے حصے کے مالک اس کے ورثاء ہیں، اگر وہ اس میں قربانی کی اجازت نہ دیں تو کسی ایسے شخص کو یہ حصہ بیچ دیں جو قربانی یا کسی اور جہت سے اللہ کی رضا کی نیت کرلے (مثلاً عقیقہ، صدقہ وغیرہ)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
" والبقر والبعير يجزي عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى، والتقدير بالسبع يمنع الزيادة، ولايمنع النقصان، كذا في الخلاصة". (5/ 304، رشیدیہ)
فتاوی ٰ شامی میں ہے :
"وشمل ما لو کانت القربة واجبةً علی الکل أو البعض اتفقت جهاتها أو لا". (رد المحتار: ۳۲۶/۶، ط: دار الفکر، بیروت)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
ولو اشترى بقرة يريد أن يضحي بها، ثم أشرك فيها ستة يكره ويجزيهم؛ لأنه بمنزلة سبع شياه حكما، إلا أن يريد حين اشتراها أن يشركهم فيها فلا يكره، وإن فعل ذلك قبل أن يشتريها كان أحسن". (۵ / ۳۰۴، رشیدیہ)
و فیہ :
وإذا اشترى سبعة بقرة ليضحوا بها فمات أحد السبعة وقالت الورثة وهم كبار: اذبحوها عنه وعنكم جاز استحسانا، ولو ذبح الباقون بغير إذن الورثة لا يجزئهم؛ لأنه لم يقع بعضها قربة لعدم الإذن منهم فلم يقع الكل قربة ضرورة عدم التجزي كذا في الكافي". (۵/ ۳۰۶، رشیدیہ) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144112200255
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن