بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک سلام کے ساتھ چار رکعات نفل کا حکم


سوال

میں آج کل ایک یورپی ملک میں تعلیم کے سلسلے میں قیام پذیر ہوں اور نماز کے لئے ایک قریبی مسجد جاتا رہتا ہوں ۔ مسجد کُرد کمیونٹی کی ہے ۔ لوگ بڑے محبت سے پیش آتے ہیں ۔ میں چونکہ عادت کے مطابق سنتیں (نوافل) بھی مسجد میں ادا کردیتا ہوں ؛ اس لئے ایک دن امام مسجد نے، نہایت طریقے سے بتایا کہ ایک تکبیر کے ساتھ دو سے زائد نوافل نہیں پڑھے جاسکتے ۔ میں نے عرض کیا کہ میرے ملک (پاکستان) میں عام طور پر ایسا ہی کیا جاتا ہے تو انہوں نے کہا کہ یہ بدعت ہے. اسی طرح ایک دن انہوں نے مجھے وتر پڑھتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ وتر میں ایک ہی قعدہ ہے اور قعدہ اولٰی بدعت ہے. براہ کرم ان مسائل پر اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کیجئے تاکہ میں امام صاحب کو بتاسکوں ۔

جواب

1- فقہائے احناف کے نزدیک دن اور رات کے نوافل میں چار رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھنا افضل ہے، البتہ دو رکعتوں کے بعد قعدہ کرنا اور التحیات پڑھنا ضروری ہے. فتاوی شامی میں ہے: (ثم الأفضل في صلاة الليل والنهار) من التطوع المطلق من حيث الكيفية كصلاة الضحى والتهجد ونحوهما( أربع ركعات بتحريمة واحدة) وسلام واحد (عنده) أي عند أبي حنيفة رحمه الله. (رد المحتار : 2/15،16 سعيد) 2- وتر کی نماز ایک سلام کے ساتھ تین رکعتیں ہیں، اور دو رکعتوں کے بعد قعدہ اولی بھی واجب ہے، احناف کے نزدیک یہ طریقہ احادیث سے ثابت ہے اور اسی پر فتوی ہے، لہذا دوسرے قعدے کو بدعت کہنا درست نہیں. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعتیں وتر پڑھتے ہیں اور تینوں رکعتوں کے آخر میں سلام پھیرتے تھے. قالت : کان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم يوتر بثلاث لا يسلم إلا في آخرهن. (نصب الراية للإمام الزيلعي 2 / 118 مؤسسة الريان بحواله مستدرك حاكم ) فقہ حنفی کی معتبر کتاب فتاوی عالمگیری میں ہے: وھو ثلاث رکعات بتسلیمۃ واحدۃ. ( الدر مع الرد: 2/5) وتجب القعدہ الاولی قدر التشھد اذا رفع راسہ من السجدہ الثانیۃ فی الرکعہ الثانیۃ فی ذوات الاربع والثلاث. (الھندیۃ : 1/71) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی جائے سکونت میں مقیم لوگ شافعی یا کسی اور فقہی مسلک سے وابستہ ہیں، اس لیے اپنی مسجد کے نمازیوں اور امام صاحب سے اس جیسے سوالات کے جواب میں الجھنے کے بجائے کہہ دیا کریں کہ آپ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد اور ان کی تحقیق پر اعتماد کرتے ہیں اور فقہائے احناف کے نزدیک یہ مسائل ویسے ہیں جیسے آپ کے عمل میں ہیں. عام لوگوں کا ان مسائل میں الجھنا مناسب طرزِ عمل نہیں. واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143709200027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں