بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک سال روزے رکھنے کی نذر میں مسلسل روزے رکھنے اور ممنوع ایام میں روزے رکھنے کا حکم


سوال

 زید نے نذر مانی کہ ہم شیرہ کو بیماری سے شفا ملی تو وہ ایک سال کے روزے رکھے گا، غالب گمان یہی ہے کہ مسلسل یا لگاتار کا لفظ زبان سے نہیں کہا، لیکن ذہن میں مسلسل رکھنے کا ہی خیال تھا، پھر طبی علاج معالجہ کیا گیا تو بحمداللہ شفا ہوگئی۔ واضح رہے کہ نذر مانتے وقت زید کے ذہن میں یہ بھی تھا کہ محض نذر کی وجہ سے فوراً بغیر علاج معالجے کے شفا ہوجائے تو روزے رکھے گا۔

اب دریافت طلب امر یہ ہے کی آیا زید پر ایک سال کے روزے رکھنا لازم ہیں یا نہیں؟ اور لازم ہونے کی صورت میں کیا لگاتار روزے رکھنا بھی لازم ہے یا نہیں؟ نیز لگاتار رکھنے کی صورت میں رمضان اور ایامِ  منہیہ کا کیا بنے گا؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر زید نے زبان سے صرف یہی الفاظ ادا کرکے نذر مانی تھی کہ ”ہم شیرہ کو بیماری سے شفا ملی تو وہ ایک سال کے روزے رکھے گا“ اور دل میں یہ نیت بھی کی تھی کہ  وہ مسلسل ایک سال روزے رکھے گا، تو اس صورت میں اس پر  معین طور پر لگاتار ایک سال کے روزے رکھنا لازم ہوں گے، البتہ پانچ ایامِ منہیہ (عیدین اور ایام تشریق ) کے روزے رکھنا جائز نہیں ہوں گے، اور ان کی بعد میں قضا لازم ہوگی۔

اور اگر زبان سے یا دل میں ایک سال مسلسل روزے رکھنے کی نیت نہیں کی تھی، بس صرف ذہن میں خیال آیا اور اس کے مطابق نیت نہیں کی  تو  اس صورت اس پر غیر معین طور پر چاند کے حساب سے ایک  سال کے روزے رکھنا لازم ہوں گے اور اس میں مسلسل رکھنا بھی لازم نہیں ہوں گے۔  اور مسلسل  رکھنے  کی صورت میں  بارہ مہینہ کے بعد  پینتیس روزوں(تیس روزے رمضان کے اور پانچ ایام منہیہ کے) کی قضا رکھنا بھی لازم ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 433):
"(ولو نذر صوم الأيام المنهية أو) صوم هذه (السنة صح) مطلقًا على المختار، وفرقوا بين النذر والشروع فيها بأن نفس الشروع معصية، ونفس النذر طاعة فصح (و) لكنه (أفطر) الأيام المنهية  (وجوبًا) تحاميًا عن المعصية (وقضاها) إسقاطًا للواجب (وإن صامها خرج عن العهدة) مع الحرمة، وهذا إذا نذر قبل الأيام المنهية فلو بعدها لم ينقض شيئًا.
وإنما يلزمه باقي السنة على ما هو الصواب، وكذا الحكم لو نكر السنة أو شرط التتابع فيفطرها، لكنه يقضيها هنا متتابعةً، ويعيد لو أفطر يومًا بخلاف المعينة، ولو لم يشترط التتابع يقضي خمسة وثلاثين ولايجزيه صوم الخمسة في هذه الصورة".

الفتاوى الهندية (1/ 210):
"ولو قال: لله علي صوم سنة، ولم يعين يصوم سنة بالأهلة، ويقضي خمسة وثلاثين يومًا ثلاثين يومًا لرمضان وخمسة أيام قضاءً عن يوم الفطر والنحر، وأيام التشريق، ولو قال: لله علي صوم سنة متتابعة، فهو كقوله: لله علي صوم هذه السنة بعينها، لايلزمه قضاء شهر رمضان؛ لأن السنة المتتابعة لاتخلو عن شهر رمضان، كذا في الخلاصة".

وفیہ ایضا(1/ 209):
"ولو قال: لله علي أن أصوم يومين أو ثلاثة أو عشرة، لزمه ذلك ويعين وقتًا يؤدي فيه، فإن شاء فرق، وإن شاء تابع، إلا أن ينوي التتابع عند النذر فحينئذٍ يلزمه متتابعًا، فإن نوى فيه التتابع، وأفطر يومًا فيه أو حاضت المرأة في مدة الصوم استأنف، واستأنفت، كذا في السراج الوهاج. ولو أوجب على نفسه متفرقًا فصام متتابعًا أجزأه، كذا في فتاوى قاضي خان". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144104200146

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں