بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک روپے کے سکے پر لفظ ’’قائدِ اعظم محمد علی جناح‘‘ لکھنا


سوال

ہمارے پاکستان کی کرنسی میں ایک روپیہ کا جو سکہ ہے، اس پر ’’محمد علی جناح‘‘  لکھا ہوا ہے، اوریہ صرف ایک روپے کے سکے پر ہی  لکھا ہے، دو روپے کے سکے،  پانچ کے اور دس روپے کے سکے پہ نہیں لکھا ہے، یہ سکہ چھوٹا ہونے اور کم مالیت کی وجہ سے بے قدری کا شکار ہے، اکثریت تو اس بات سے واقف ہی نہیں ہے کہ اس پر ’’محمد علی جناح‘‘ لکھا ہوا، میری محدود سوچ بھی یہ بات گوارا نہیں کررہی کہ ایک روپے پر ہی یہ نام کیوں لکھا ہے؟  کیا یہ بے ادبی نہیں ہے؟ کہیں زمین پر گرا، یا اللہ نہ کرے کہیں گندگی میں گر جائےتو اٹھانے کی کوئی زحمت ہی نہ کرے؟  اس خوف سے میں نے ذاتی طور پر گھر میں ایک روپے کے سکے جمع کرنے شروع کیے ہیں، ہم یہ سکے کسی کو نہیں دیتے،  نہ ہی خرچ کرتے ہیں، بس ایک ڈبے میں ڈال رہے ہیں، آپ سے گزارش ہے کہ ہماری راہ نمائی فرمائیں، ہم قطعی طور پر لاعلم ہیں، ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ ہمارا یہ اقدام اپنے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کی وجہ سے ہے، واللہ ہمیں اپنے محبوب دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہے!

جواب

1۔ ’’محمد‘‘ اور’’علی ‘‘ مقدس اسماء ہیں،  مگرسکےپر انہیں  تحریرکرنے میں بے ادبی یا توہین کا پہلو نہیں ہے، آج کے دورمیں  جیسے نام کی تختی کالگنا، نام سے ڈاک ٹکٹ کا جاری ہونا، کسی علاقے، عمارت یا گلی وغیرہ کا نام سے منسوب ہونا احترام اورخدمات کااعتراف سمجھا جاتا ہے، اسی طرح نوٹ پر نام کا چھپنا خاص  عزت اورافتخار کی علامت ہے اوراس اعزاز کو عام طورپر بلکہ کلی طورحکم ران وسربراہان اپنے لیے مخصوص رکھتے ہیں۔

2۔ تاریخی حوالے سے بھی مسلم اورغیر مسلم کی تفریق کے بغیر  حکم رانوں  کی روایت رہی ہے کہ وہ اپنے زمانے میں رائج سکوں پر اپنا نام یا کوئی خاص کلمات لکھوالیا کرتے ہیں،  زمانہ اسلام سے چار سو سال قبل کے سکے پائے گئے،  جن پر ’’اردشیر بن بابک‘‘  کا نام لکھا ہوا تھا، دینار کو سب سے پہلے عبد الملک بن مروان نے سکے کی شکل دی اور اس کی ایک جانب ’’قل هو الله أحد‘‘  لکھا، جب کہ دوسری جانب ’’لا إله إلا الله‘‘  لکھا ۔ 

یہ سلسلہ چلتا رہا، جب سکوں کی جگہ کاغذی نوٹوں نے لے لی تو اس وقت بھی جاری رہا اورتاحال جاری ہے، گویا یہ ایک ایسی روایت بن گئی ہے جو ہردورمیں بلاانقطاع جاری رہی ہے اورعلماء وصلحاء نے اس پر کوئی نکیر نہیں کی ہے۔ (1)

۳۔ فقہی پہلو سے بھی ایساکرنے میں حرج معلوم نہیں ہوتا۔ فتاوی ہندیہ میں ہے کہ درہم پر اللہ رب العزت کا نام لکھنے میں کوئی حرج نہیں،  کیوں کہ لکھنےوالے کا مقصد علامت اور نشانی ہوتی ہے، توہین اور تذلیل نہیں:

الفتاوى الهندية (5/ 323) ط: دار الفکر:

"لا بأس بكتابة اسم الله تعالى على الدراهم؛ لأن قصد صاحبه العلامة لا التهاون، كذا في جواهر الأخلاطي".

۴۔  زیادہ سے زیادہ استعمال کے پہلو سے بے ادبی کااندیشہ  ہوسکتا ہے،  مگر سکے اورنوٹ کی وضع پامالی اوراہانت کے موقع پر استعمال کی نہیں ہے، بلکہ ’’مال‘‘ ہونے کی وجہ سے شرعاً و عرفاً محترم ہے،   فقہاء لکھتے ہیں کہ بیت الخلاء  میں کوئی ایسا کاغذ لے جانا مکروہ ہے جس پر کوئی مقدس کلمات یا نام لکھے ہوں، لیکن اگر انہیں جیب میں یا بٹوہ وغیرہ میں رکھ کر لے جایا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ (2)

ان نکات کی بنا  پرپاکستانی کرنسی کے ایک روپے کے سکے پر ’’قائد اعظم محمد علی جناح‘‘ کانام  لکھنے کی  وجہ سے لفظ ’’محمد‘‘  اور ’’علی‘‘  کی بے حرمتی نہیں ہوتی، البتہ اگر وہ زمین یا کسی گندی جگہ غیر ارادی طور پر گرجائیں تو اسے اٹھا کر صاف کرلیا جائے،  نبی کریم ﷺ کی محبت میں آپ کا جذبہ اچھا ہے،  لیکن شریعت کی جانب سے دی گئی اجازت کو اختیار کرنے میں حرج نہیں۔ فقط و اللہ اعلم

حوالہ جات

(1) تاريخ ابن خلدون (1/ 323) ط: دار الفكر، بيروت:

"وأمر عبد الملك الحجّاج على ما نقل سعيد بن المسيّب وأبو الزّناد بضرب الدّراهم وتمييز المغشوش من الخالص وذلك سنة أربع وسبعين وقال المدائنيّ سنة خمس وسبعين ثمّ أمر بصرفها في سائر النّواحي سنة ستّ وسبعين وكتب عليها «الله أحد الله الصّمد» ثمّ ولّي ابن هبيرة العراق أيّام يزيد بن عبد الملك فجوّد السّكّة  ثمّ بالغ خالد القسريّ في تجويدها ثمّ يوسف بن عمر بعده وقيل أوّل من ضرب الدّنانير والدّراهم مصعب بن الزّبير بالعراق سنة سبعين بأمر أخيه عبد الله لمّا ولي الحجاز وكتب عليها في أحد الوجهين «بركة الله» وفي الآخر «اسم الله» ثمّ غيّرها الحجّاج بعد ذلك بسنة وكتب عليها اسم الحجّاج".

المنتظم في تاريخ الملوك والأمم (6/ 147):

"وقد روينا أن أول من ضرب الدراهم آدم عليه السلام و قد وجدوا دراهم ضرب عليها اسم أردشير بن بابك قبل الإسلام بأكثر من أربعمائة سنة، فضربها عبد الملك ونقش عليها. . . . و قال وكيع: وأخبرني محمد بن الهيثم، قال: سمعت ابن بكير يقول: سمعت مالك بن أنس يقول: أول من ضرب الدنانير عبد الملك، وكتب عليها القرآن قال وكيع: وأخبرني ابن أبي خيثمة، عن مصعب بن عبد الله، قال: وكان وزن الدراهم والدنانير في الجاهلية وزنها اليوم في الإسلام مرتين تدور بين العرب، وكان ما ضرب منها ممسوحا غليظا قصيرا، وليس فيها كتاب حتى كتبها عبد الملك، فجعل في وجه: قل هو الله أحد، وفي الوجه الآخر: لا إله إلا الله. وطوقها بطوق فضة وكتب فيه: ضرب هذا الدرهم بمدينة كذا، وفي الطرف الآخر: محمد رسول الله أرسله ... بالهدى".

(2) البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (1 / 213) ط:دار المعرفة:

" وفي الخلاصة: لو كان على خاتمه اسم الله تعالى يجعل الفص إلى باطن الكف ا هـ."

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 54):

"قوله: "ويكره الدخول للخلاء ومعه شيء مكتوب الخ" لما روى أبو داود والترمذي عن أنس قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء نزع خاتمه أي لأن نقشه محمد رسول الله قال الطيبي فيه دليل على وجوب تنحية المستنجي اسم الله تعالى واسم رسوله والقرآن اهـ وقال الأبهري وكذا سائر الرسل اهـ وقال ابن حجر استفيد منه أنه يندب لمريد التبرز أن ينحى كل ما عليه معظم من اسم الله تعالى أو نبي أو ملك فإن خالف كره لترك التعظيم اهـ وهو الموافق لمذهبنا كما في شرح المشكاة قال بعض الحذاق ومنه يعلم كراهة استعمال نحو ابريق في خلاء مكتوب عليه شيء من ذلك اهـ وطشت تغسل فيه الأيدي ثم محل الكراهة إن لم يكن مستورا فإن كان في جيبه فإنه حينئذ لا بأس به وفي القهستاني عن المنية الأفضل إن لا يدخل الخلاء وفي كمه مصحف إلا إذا اضطر ونرجو أن لا يأثم بلا اضطرار اهـ وأقره الحموي وفي الحلبي الخاتم المكتوب فيه شيء من ذلك إذا جعل فصه إلى باطن كفه قيل لا يكره والتحرز أولى اهـ".

الموسوعة الفقهية الكويتية (20 / 252) ط: دارالسلاسل ، الكويت:

"دخول الخلاء مع حمل الدراهم التي عليها اسم الله :

يكره عند جمهور الفقهاء ( الحنفية والمالكية و الشافعية ) دخول الخلاء مع حمل الدراهم التي نقش عليها اسم الله أو شيء من القرآن ، لكن قال الحنفية : إن اتخذ الإنسان لنفسه مبالا طاهرا في مكان طاهر لا يكره ، وقال المالكية : إن كانت الدراهم مستورة بشيء أو خاف عليها الضياع جاز الدخول بها .

واختلفت الأقوال عند الحنابلة . فجاء في كشاف القناع أنه لا بأس بدخول الخلاء ومع الرجل الدراهم والدنانير عليها اسم الله ، قال أحمد : أرجو ألا يكون به بأس ، وفي المستوعب إن إزالة ذلك أفضل ، قال في تصحيح الفروع : ظاهر كلام كثير من الأصحاب أن حمل الدراهم ونحوها كغيرها في الكراهة ، وذكر ابن رجب أن أحمد نص على كراهة ذلك في رواية إسحاق بن هانئ وقال في الدراهم : إذا كان فيه اسم الله أو مكتوبا عليه { قل هو الله أحد } يكره أن يدخل اسم الله الخلاء ".


فتوی نمبر : 144103200226

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں