بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک رمضان میں کئی بار ہم بستری کا کفارہ


سوال

ایک ہی رمضان میں 2 بار الگ الگ دن مباشرت کرنے سےکتنے روزے رکھنے ہوں  گے؟ اور روزے رکھنے کے بغیر کیا حل ہوگا؟ جس سے کفارہ ادا ہو جائے ؟

جواب

ایک ہی رمضان میں کئی بار روزے  کی حالت میں  جماع کرنے سے ایک ہی کفارہ ادا کرنا لازم ہوگا جب کہ ایک مرتبہ جماع کرکے کفارہ ادا نہ کیا ہو۔ اگر کفارہ ادا کرنے کے بعد پھر اسی رمضان کے روزے میں ہم بستری کرلی تو دوبارہ کفارہ واجب ہوگا۔  جب تک روزہ رکھنے پر قدرت ہے  مسلسل ساٹھ روزے سے ہی کفارہ ادا کرنا  ضروری ہے، بڑھاپے یا دائمی بیماری کی وجہ سے اگر روزہ نہ رکھ سکتا ہوں تو فدیہ دے گا۔

واضح رہے کہ رمضان المبارک کی رات میں (غروبِ آفتاب سے لے کرصبح صادق تک) میاں بیوی کا تعلق قائم کرنا منع نہیں ہے، ہاں روزے کی حالت میں منع ہے۔ لہٰذا اگر کسی نے رمضان المبارک کے روزے کی صبح صادق سے پہلے نیت کرنے کے بعد اس روزے میں ہم بستری کرلی تو روزہ فاسد ہوجائے گا، اور قضا کے علاوہ کفارہ بھی لازم ہوگا۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 101):

’’ولو جامع في رمضان متعمداً مراراً بأن جامع في يوم ثم جامع في اليوم الثاني ثم في الثالث ولم يكفر، فعليه لجميع ذلك كله كفارة واحدة عندنا، ولو جامع في يوم ثم كفر، ثم جامع في يوم آخر فعليه كفارة أخرى في ظاهر الرواية، ولو جامع في رمضانين ولم يكفر للأول فعليه لكل جماع كفارة في ظاهر الرواية، وذكر محمد في الكيسانيات أن عليه كفارة واحدة، وكذا حكى الطحاوي عن أبي حنيفة‘‘.

الدر المختار (2/ 413):

’’ولو تكرر فطره ولم يكفر للأول يكفيه واحدة ولو في رمضانين عند محمد، وعليه الاعتماد، بزازية ومجتبى وغيرهما، واختار بعضهم للفتوى أن الفطر بغير الجماع تداخل وإلا لا‘‘. حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 413):

’’(قوله: وعليه الاعتماد) نقله في البحر عن الأسرار، ونقل قبله عن الجوهرة: لو جامع في رمضانين فعليه كفارتان وإن لم يكفر للأولى في ظاهر الرواية، وهو الصحيح. قلت: فقداختلف الترجيح كما ترى، ويتقوى الثاني بأنه ظاهر الرواية‘‘.  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200061

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں