بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایک،دو،تین،خلاص کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

 اگر کوئی  شخص دل دل میں یہ سوچے کہ نکاح کرنے کے بعد اگر بیوی اس کام کرنے سے منع کرے تو (یہاں تک دل دل میں سوچا )  ایک دو تین اور خلاص ( ایک دو تین اور خلاص ان الفاظ پر تلفظ کیا ) تو شادی کے بعد اس کا کیا حکم ہے؟  یہاں بھی بتادیں کہ ایک دو تین اور خلاص کو طلاق کی نیت سے ادا کرے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟

جواب

نکاح سے پہلے مذکورہ الفاظ (ایک، دو، تین اور خلاص) کہنے کا کوئی اعتبار نہیں ہے، (خواہ طلاق کی نیت سے کہے ہوں) یہ الفاظ لغو ہوجائیں گے اور نکاح (شادی) کرنے کے بعد ان  الفاظ کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 230):

"وركنه لفظ مخصوص.

 (قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالةً على معنى الطلاق من صريح أو كناية".

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولايلزم كون الإضافة صريحةً في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق، فقيل له: من عنيت؟ فقال امرأتي، طلقت امرأته. اهـ. على أنه في القنية قال عازياً إلى البرهان صاحب المحيط: رجل دعته جماعة إلى شرب الخمر، فقال: إني حلفت بالطلاق أني لاأشرب وكان كاذباً فيه ثم شرب طلقت... فهذا يدل على وقوعه وإن لم يضفه إلى المرأة صريحاً، نعم يمكن حمله على ما إذا لم يقل: إني أردت الحلف بطلاق غيرها فلايخالف ما في البزازية ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال: طلقت امرأة ثلاثاً، وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها، فقوله: إني حلفت بالطلاق ينصرف إليها ما لم يرد غيرها لأنه يحتمله كلامه". (کتاب الطلاق، ج:۳ ؍ ۲۴۸ ، ط:سعید ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200109

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں