بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رسول اللہ ﷺ کی نمازِ جنازہ سے متعلق ایک حدیث کی تحقیق


سوال

ایک روایت سنی ہے کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا :

آپ کے انتقال کے بعد آپ کی نماز جنازہ کون پڑھائے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب تم لوگ میری تغسیل وتکفین سے فارغ ہوجاؤ تو مجھے چار پائی پر لٹاکر مسجد سے باہر نکل جانا، اس لیے کہ میری نمازِ  جنازہ سب سے پہلے اللہ تعالی پڑھیں گے پھر فرشتے ۔۔۔الخ

مجھے یہ دریافت کرنا ہے کہ یہ روایت (ان الفاظ کے ساتھ کہ میری نماز جنازہ سب سے پہلے اللہ تعالی پڑھیں گے) کن کن کتب میں آئی ہے اور صحت کے کس درجہ میں ہے؟

جواب

مذکورہ حدیث کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کیا ہے ، اس کے الفاظ یہ اس طرح ہیں :

"يا رسول الله إذا أنت قبضت فمن يغسلك ؟ وفيم نكفنك ؟ ومن يصلي عليك ؟ ومن يدخل القبر ؟ فقال النبي صلى الله عليه و سلم : يا علي أما الغسل فاغسلني أنت و الفضل بن عباس يصب عليك الماء وجبريل عليه السلام ثالثكما فإذا أنتم فرغتم من غسلي فكفنوني في ثلاثة أثواب جدد وجبريل عليه السلام يأتيني بحنوط من الجنة فإذا أنتم وضعتموني على السرير فضعوني في المسجد واخرجوا عني فإن أول من يصلي علي الرب عز و جل من فوق عرشه ثم جبريل عليه السلام ثم ميكائيل ثم إسرافيل عليهما السلام ثم الملائكة زمرا زمرا ثم ادخلوا فقوموا صفوفا لا يتقدم علي أحد فقالت فاطمة رضي الله تعالى عنها : اليوم الفراق فمتى ألقاك ؟ فقال لها : يا بنية تلقيني يوم القيامة عند الحوض وأنا أسقي من يرد علي الحوض من أمتي قالت : فإن لم ألقك يا رسول الله ؟ قال : تلقيني عند الميزان وأنا أشفع لأمتي قالت : فإن لم ألقك يا رسول الله ؟ قال : تلقيني عند الصراط وأنا أنادي ربي سلم أمتي من النار". (المعجم الکبیر للطبرانی: ۲/۶۵۹، مکتبۃ الاصالۃ والتراث)

لیکن اس حدیث میں عبدالمنعم بن ادریس بن سنان ہے جن کے بارے میں جمہور نے سخت جرح کی ہے، چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں:

"مشهور قصاص لیس یعتمد علیه ترکه غیر واحد".

اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"کان یکذب علی وهب بن منبه". (میزان الاعتدال : ۲/۵۸۱ ، ط: الرسالۃ العالمیۃ )

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"ذاهب الحدیث". (التاریخ الکبیر:۵/۳۹۵، دارالکتب العلمیۃ)

ابن حبان فرماتے ہیں:

"یضع الحدیث علی أبیه وعلی غیره من الثقات، لایحل الاحتجاج به ولا الروایة عنه، کانت أمه أم سلمة بنت وهب بن منبه". (کتاب المجروحین :۲/۱۵۷، دارالوعی حلب)

ابن معین فرماتے ہیں:

"الکذاب الخبیث، قیل له: یا ابا زکریا بم عرفته؟ قال: حدثني شیخ صدق أنه رآه في زمن أبي جعفر یطلب هذه الکتب من الوراقین وهو الیوم یدعیها، فقیل له: إنه یروي عن معمر فقال: کذاب". (لسان المیزان :۵/۲۸۰)

عبدالمنعم بن ادریس کے شدید ضعیف اور متہم بالوضع ہونے کی وجہ سے محدثین نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے، چنانچہ علامہ ابن الجوزی فرماتے ہیں:

"هذا حدیث موضوع محال، کافأ الله من وضعه وقبح من یشین الشریعة بمثل هذا التخلیط البارد والکلام الذی لایلیق بالرسول صلی الله علیه وسلم ولا بالصحابة،  والمتهم به  عبد المنعم بن إدریس، قال أحمد بن حنبل: کا ن یکذب علی وهب، وقال: یحیی: کذاب خبیث، وقال ابن المدیني وأبوداود: لیس بثقة، وقال ابن حبان: لایحل الاحتجاج به، وقال الدارقطني: هو وأبوه متروکان". (کتاب الموضوعات لابن الجوزي:۱/۲۹۵)

اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی اس موضوع قرار دیا ہے ، چنانچہ لکھتے ہیں:

"آفته عبدالمنعم". (اللالئی المصنوعة : ۱/۲۵۴)

خلاصہ یہ کہ یہ حدیث موضوع ہے اور اکثر محدثین نے اسے رد کیا ہے، لہذا اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنا درست نہیں ۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201595

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں