بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ایسی مہندی کا استعمال جس کی تہہ جم جاتی ہو


سوال

 جو مہندی کی کون آج کل بازار میں مل رہی ہے اس کو لگانے سے رنگ تیز آتا ہے، مگر اترتے وقت ہاتھوں پہ پپڑی جم جاتی ہے جو کھرچنے سے اترنےلگتی ہے۔کیا ایسی مہندی لگانے سے غسل یا وضو ہو جاتا ہے؟ میرے شوہر کو میرے مہندی لگے ہاتھ بہت پسند ہیں، مگر میں صرف طہارت کے خیال سے نہیں لگاتی۔ 

جواب

عام طور پر ایسی مہندی نہیں ہوتی جس کی ایسی تہہ جم جائے جو کھال تک پانی پہنچنے سے مانع ہو، لیکن اگر واقعۃً کسی مہندی کے استعمال سے  ہاتھوں پر ایک تہہ بن جاتی ہو اور پھر کھرچنے سے وہ اترنے لگتی ہو ،توایسی مہندی لگانے سے وضو اور غسل نہیں ہوگا جب تک کہ وہ تہہ ہاتھوں پر موجود ہو، لہذا اس طرح کی مہندی کے استعمال سے اجتناب کیا جائے۔ جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

’’سوال:

آج کل بازار میں ایک مہندی آئی ہوئی ہے، اس کو لگایا جائے تو لگانے کے دس یا پندرہ منٹ بعد رنگ لے آتی ہے، لیکن جب یہ رنگ اترنا شروع ہوتا ہے تو عام مہندی کے رنگ کی طرح نہیں، یعنی مٹتا نہیں، بلکہ ربڑ کی طرح کھال سے جدا ہوکر گرتاہے۔ اب بعض خواتین کا کہنا ہے کہ یہ جو اترتا ہے یہ رنگ نہیں ہے، بلکہ جسم کی کھال ہے، جو اس (کیمیکل ملی ہوئی) مہندی کے جلد پر اثر انداز ہونے کی وجہ سے گرتی ہے، جب کہ بعض خواتین کا کہناہے کہ یہ مہندی کا رنگ ہے جو مہندی لگانے کے بعد آجاتا ہے، کھال نہیں ہے۔

اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس مہندی کا کیا حکم ہے؟ اس کو استعمال کیا جاسکتاہے یا نہیں؟ جسم سے جدا ہونے والی چیز کو مہندی کا رنگ شمار کیا جائے گا یا جسم کی کھال؟ اور اس رنگ کے موجود ہوتے ہوئے وضو اور غسل کا کیا حکم ہوگا؟

مستفتی: انصرام احمد شمسی

جواب:

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مہندی کا استعمال شرعاً جائز ہے، اور اس مہندی کے رنگ کے ہوتے ہوئے وضو اور غسل بھی ہوجاتاہے، کیوں کہ اس کی ایسی تہہ نہیں ہوتی جو پانی کو جسم تک نہ پہنچنے دے ۔۔۔الخ

کتبہ: دوست محمد

الجواب صحیح: ابوبکر سعید الرحمٰن               محمد انعام الحق                         محمد شفیق عارف

بازار میں عموماً جو مہندی دست یاب ہے اس کے استعمال سے رنگ باقی رہتاہے  اور اترتے ہوئے تہہ اترجاتی ہے، ایسی مہندی لگانادرست ہے اوراس کے رنگ کے باقی رہتے ہوئے  وضواورغسل بھی ہوجائے گا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200423

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں