بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے رقم کی منتقلی پر ڈسکاؤنٹ ملنا


سوال

 آج کل ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے کچھ خریدیں تو کمپنی اپنی طرف سے کچھ پیسے واپس کرتی ہے جیسے میں نے آج ریل کا ٹکٹ خریدا، جس کی قیمت 1310روپے ہے، کمپنی نے میرے اکاؤنٹ سے اتنی رقم ریلوے کو ادا کر دی اور اپنی طرف سے 200روپے میرے اکاؤنٹ میں بھیج دیے، کیا یہ شرعا جائز ہے؟

جواب

"ایزی پیسہ اکاؤنٹ  " ایک ایسی سہولت ہے جس میں آپ اپنی جمع کردہ رقوم  سے کئی قسم کی سہولیات حاصل کرسکتے ہیں، مثلاً: بلوں کی ادائیگی، یا رقوم کا تبادلہ، موبائل وغیرہ میں بیلنس کا استعمال وغیرہ ،  نیز تحقیق کرنے پر یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان کی پشت پر ایک بینک ہوتا ہے، telenor micro-financing bank ، یہ بھی ایک قسم کا بینک ہی ہے کہ جس میں عام طور پر چھوٹے سرمایہ داروں کی رقوم سود پر رکھی جاتی ہیں اور اس میں سے چھوٹے کاروباروں کے لیے سود پر قرض بھی دیا جاتا ہے۔

اس کی فقہی حیثیت یہ ہے کہ اس اکاؤنٹ میں جمع کردہ رقم قرض ہے ، اور  چوں کہ قرض دے کر اس سے کسی بھی قسم کا نفع اٹھانا جائز نہیں ہے؛ اس لیے اس قرض کے بدلے کمپنی کی طرف سے دی جانے والی سہولیات وصول کرنا اور ان کا استعمال کرنا جائز نہیں ہے، لہذا   کمپنی  اکاؤنٹ ہولڈر کو اس مخصوص رقم جمع کرانے کی شرط پر  یومیہ فری منٹس اور میسیجز وغیرہ کی سہولت فراہم کرتی ہے یا رقم کی منتقلی پر ڈسکاؤنٹ وغیرہ دیتی ہے تو  ان کا استعمال جائز نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس اکاؤنٹ میں رقم رکھوانا درحقیقت  قرض ہے، اور  قرض دینا تو فی نفسہ جائز ہے، لیکن کمپنی اس پر جو  مشروط منافع دیتی  ہے، یہ  شرعاً ناجائز ہے؛ اس لیے کہ قرض پر شرط لگا کر نفع  کے لین دین  کو نبی کریم ﷺ نے سود قرار دیا ہے۔ (مصنف بن أبی شیبہ، رقم:۲۰۶۹۰ )

 نیز   چوں کہ اس میں  مذکورہ اکاؤنٹ کھلوانا ناجائز معاملے کےساتھ مشروط ہے ؛ اس لیے یہ اکاؤنٹ کھلوانا یا کھولنا  بھی جائز نہیں ہوگا۔

اگر کوئی ''ایزی پیسہ اکاؤنٹ'' کھلواچکاہو تو اس کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ صرف اپنی جمع کردہ رقم واپس لے سکتاہے، یا صرف جمع کردہ رقم کے برابر استفادہ کرسکتاہے، اس رقم پر ملنے والے اضافی فوائد حاصل کرنا اس کے لیے جائز نہیں ہوں گے۔

 اگر اس اکاؤنٹ کھلوانے  یا اس میں رقم رکھنے پر  کمپنی کوئی مشروط نفع (مثلاً: فری منٹس، انٹرنیٹ ایم بی ، میسج وغیرہ) نہ دیتی ہو تو اس حد تک اس اکاؤنٹ کااستعمال درست ہوگا،رقم منتقلی کی صورت میں اگر کمپنی صارف سے کچھ رقم (بطور سروس چارجز) وصول کرے تو یہ بھی درست ہوگا، اور ایسی صورت میں اگر ایزی پیسہ اکاؤنٹ سے اپنے بجلی، فون وغیرہ کے بل یا ٹکٹ کی رقم کی ادائیگی کرنے پر اکاؤنٹ میں کچھ پیسے اکاؤنٹ میں آتے ہوں تو اس کے استعمال کی بھی گنجائش ہوگی۔ 

واضح رہے کہ عموماً ''ایزی پیسہ اکاؤنٹ''  پہلی صورت  کا ہوتاہے ؛ لہٰذا ایسا اکاؤنٹ کھلوانا  جائز نہیں  ہوگا، البتہ اگر کمپنی دوسری  صورت کے مطابق '' ایزی پیسہ اکاؤنٹ'' کی سہولت دے تو ایسا اکاؤنٹ کھولنے اور اس کے استعمال کی اجازت ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں