اگر عدالت کا خلع کا فیصلہ ماہ واری کے دوران یا ماہ واری کے ختم ہونے کے فوراً بعد ہو یا ماہ واری کےدوران ہو تو اس کے لیے عدت کا کیا طریقہ ہو گا؟
واضح رہے کہ خلع کی عدت بھی طلاق کی عدت کی طرح تین حیض ہی ہے، جیسا کہ مؤطا امام مالک میں ہے:
"عن نافع؛ أن ربيع بنت معوذ بن عفراء، جاءت وعمتها إلى عبدالله بن عمر، فأخبرته أنها اختلعت من زوجها في زمان عثمان بن عفان، فبلغ ذلك عثمان بن عفان، فلم ينكره، وقال عبدالله بن عمر: عدتها عدة المطلقة، مالك؛ أنه بلغه أن سعيد بن المسيب وسليمان بن يسار وابن شهاب كانوا يقولون: عدة المختلعة مثل عدة المطلقة ثلاثة قروء". (مؤطا الإمام مالك كتاب الطلاق، طلاق المختلعة، ص: 518، ط: نور محمد كراتشي)
ترجمہ: نافع سے روایت ہے کہ ربیع بنت معوذ بن عفرا اور ان کی پھوپھی عبداللہ بن عمر کے پاس آئیں اور بیان کیا کہ انہوں نے اپنے خاوند سے خلع کیا تھا، حضرت عثمان کے زمانے میں جب یہ خبر حضرت عثمان کو پہنچی انہوں نے برا نہ جانا، عبداللہ بن عمر نے کہا جو عورت خلع کرے اس کی عدت مطلقہ کی عدت کی طرح ہے۔ سعید بن مسیب اور سلیمان بن یسار اور ابن شہاب کہتے تھے جو عورت خلع کرے وہ تین حیض تک عدت کرے جیسے مطلقہ عدت کرتی ہے۔
لہٰذا اگر کسی عورت کو ماہ واری (حیض) کی حالت میں طلاق یا خلع دی گئی، تو یہ ماہ وار اس کی عدتِ طلاق میں شمار نہیں کی جائے گی؛ بلکہ اس سے اگلی مرتبہ جو ماہ واری آئے گی اس سے عدت شمار ہوگی۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"إذا طلق امرأته في حالة الحيض كان عليها الاعتداد بثلاث حيض كوامل ولاتحتسب هذه الحيضة من العدة، كذا في الظهيرية". (الفتاوى الهندية كتاب الطلاق الباب الثالث عشر في العدة 1/527، ط: رشيدية)
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر ماہ واری میں خلع واقع ہوئی ہے تو اس ماہ واری کو عدت میں شمار نہیں کریں گے، بلکہ اس کے بعد مزید تین ماہ واری عدت گزارنا ضروری ہے۔
البتہ مذکورہ عدالتی خلع سے طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ اس کا جواب عدالتی فیصلہ دیکھنے یا اس کے مندرجات معلوم ہونے پر ہی دیا جاسکتا ہے؛ کیوں کہ خلع کے شرعاً درست ہونے کے لیے جانبین کی رضا مندی شرط ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012200874
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن