بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگرراستے کی مسجد میں امام و مؤذن مقرر ہو تو جماعتِ ثانیہ کا حکم


سوال

متاخرین نے ’’مسجد‘‘  کی کیا تعریف کی ہے؟  آج کل راستے کی مسجد میں بھی امام اور مؤذن مقرر ہوتے ہیں، کیا راستہ کی مسجد میں دوبارہ جماعت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ 

جواب

اگر کسی زمین کا مالک اپنی زمین کو مسجد کے لیے وقف کر دے اور یہ جملہ کہہ دے کہ میں نے اس کو مسجد کے لیے وقف کر دیا تو وہ جگہ اس شخص کی ملکیت سے نکل جاتی ہے اور مسجدِ شرعی بن جاتی ہے۔ اور مسجدِ شرعی وہ ہوتی ہے جو زمین سے لے کر آسمان تک مسجد کے حکم میں ہوتی ہے، یعنی اس کے اوپر یا نچلی منزل یا تہہ خانے میں انسانی ملکیت کا تصور ختم ہوجاتاہے اور اس کے اوپر یا نیچے مسجد کے احترام کے خلاف کوئی بھی فعل جائز نہیں ہوتا۔ اور اگر کسی جگہ کو نماز کے لیے تو مخصوص کیا گیا ہو، لیکن زمین سے آسمان تک اسے مسجدِ شرعی کا درجہ نہ دیا گیا ہو تو وہ مصلی کہلاتاہے، اگرچہ اس مصلے کو کوئی شخص وقف کردے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 356):
"(ويزول ملكه عن المسجد والمصلى) بالفعل و (بقوله: جعلته مسجداً) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه)".

فقہاء نے جہاں مسجد میں تکرارِ جماعت کو مکروہ لکھا ہے وہاں  بعض صورتوں کو مستثنیٰ کیا ہے اور ان مستثنیٰ صورتوں میں سے یہ دو صورتیں جدا جدا ہیں:

* ایسی مسجد جو راستے پر واقع ہو۔ 

* ایسی مسجد جس کا امام و مؤذن مقرر نہ ہو۔ 

لہذا ان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لازم سمجھنا فہم کی غلطی ہے۔

نیز   مسجد میں تکرارِ جماعت کے  مکروہ ہونے کی من جملہ علل میں سے ایک علت یہ بھی ہے کہ تکرارِ جماعت سے تقلیلِ جماعت لازم آئے گی یعنی لوگ دوسری جماعت سے نماز پڑھنے کے بھروسہ پر پہلی جماعت میں شریک نہیں ہوں گے اور یہ علت مسجدِ طریق میں نہیں پائی جاتی؛ کیوں کہ وہاں لوگ آتے اور جاتے ہیں تو  ایسی مسجد میں بعد میں آنے والی جماعت کے بھروسہ پر نماز میں تاخیر نہیں کی جائے گی۔

یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ  امام و مؤذن کا تقرر مسجد  شرعی کی تعریف میں داخل نہیں  ہے۔

لہذا اگر کسی راستے کی مسجد میں (جہاں آباد محلہ اور مقامی رہائشی نمازی نہ ہوں) امام و مؤذن مقرر کر دیا جائے جو  نمازوں کے اوقات میں موجود لوگوں کو نماز پڑھائے، اس وجہ سے بعد میں آنے والوں کے  لیے اس مسجد میں دوبارہ جماعت کروانا مکروہ نہیں ہو گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 552):
"(قوله: ويكره) أي تحريمًا؛ لقول الكافي: لايجوز، والمجمع: لايباح، وشرح الجامع الصغير: إنه بدعة، كما في رسالة السندي. (قوله: بأذان وإقامة إلخ) عبارته في الخزائن: أجمع مما هنا ونصها: يكره تكرار الجماعة في مسجد محلة بأذان وإقامة، إلا إذا صلى بهما فيه أولًا غير أهله، لو أهله لكن بمخافتة الأذان، ولو كرر أهله بدونهما أو كان مسجد طريق جاز إجماعًا، كما في مسجد ليس له إمام ولا مؤذن ويصلي الناس فيه فوجًا فوجًا؛ فإن الأفضل أن يصلي كل فريق بأذان وإقامة على حدة، كما في أمالي قاضي خان اهـ ونحوه في الدرر، والمراد بمسجد المحلة ما له إمام وجماعة معلومون، كما في الدرر وغيرها. قال في المنبع: والتقييد بالمسجد المختص بالمحلة احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احترازًا عما إذا صلى في مسجد المحلة جماعة بغير أذان حيث يباح إجماعًا. اهـ.

وأما مسجد الشارع فالناس فيه سواء لا اختصاص له بفريق دون فريق اهـ".

المبسوط للسرخسي (1/ 135):
"(ولنا) أنا أمرنا بتكثير الجماعة، وفي تكرار الجماعة في مسجد واحد تقليلها؛ لأن الناس إذا عرفوا أنهم تفوتهم الجماعة يعجلون للحضور؛ فتكثر الجماعة، وإذا علموا أنه لاتفوتهم يؤخرون؛ فيؤدي إلى تقليل الجماعات، وبهذا فارق المسجد الذي على قارعة الطريق؛ لأنه ليس له قوم معلومون فكل من حضر يصلي فيه، فإعادة الجماعة فيه مرةً بعد مرة لاتؤدي إلى تقليل الجماعات".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200300

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں