ایک شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ اگر تم اپنی بہن کے گھر گئی تو تمہیں طلاق ہے، اب ان کی بہن سے صلح ہو چکی ہے اوراس شخص کی بیوی اپنی بہن کے گھر جانا چاہتی ہےتو اب طلاق سے بچنے کا کیا طریقہ ہے؟ اور اگر جانے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے تو کون سی طلاق ہو گی؟اور اگر تین مرتبہ بہن کے گھر گئی تو کیا مغلظہ ہو جائے گی؟برائے مہربانی راہ نمائی کریں۔
صورتِ مسئولہ میں سائل نے اگر مذکورہ الفاظ / اگر تم اپنی بہن کے گھر گئیں تو تمہیں طلاق/ ایک مرتبہ کہے تھے تو اس سے ایک طلاقِ رجعی معلق ہوگئی تھی، اب اگر مذکورہ شخص کی بیوی اپنی بہن کے گھر جائے گی تو اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی ایک طلاقِ رجعی واقع ہوجائے گی، دورانِ عدت شوہر کو رجوع کا حق حاصل ہوگا، اور اگر عدت کے دوران رجوع نہ کیا تو عدت مکمل ہوتے ہی نکاح مکمل طور پر ختم ہوجائے گا، البتہ باہمی رضامندی سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے تقرر کے ساتھ تجدید نکاح کی اجازت ہوگی، بہر صورت آئندہ مذکورہ شخص کو دو طلاق کا حق حاصل ہوگا۔
البتہ اگر مذکورہ شخص نے مذکورہ الفاظ تین بار کہے ہوں تو بہن کے گھر جاتے ہی تینوں طلاق واقع ہوجائیں گی، اور مذکورہ شخص کی بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔ نہ رجوع جائز ہوگا اور نہ ہی تجدیدِ نکاح کی اجازت ہوگی، تاآں کہ وہ عورت عدت گزرنے کے بعد کسی دوسری جگہ نکاح کرے، اور دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ زن و شو کا تعلق قائم کرنے کے بعد از خود طلاق دے دے، اور دوسرے شوہر کی عدت بھی گزر جائے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وَإِذَا أَضَافَهُ إلَى الشَّرْطِ وَقَعَ عَقِيبَ الشَّرْطِ اتِّفَاقًا، مِثْلُ أَنْ يَقُولَ لِامْرَأَتِهِ: إنْ دَخَلْتُ الدَّارَ فَأَنْتِ طَالِقٌ، وَلَا تَصِحُّ إضَافَةُ الطَّلَاقِ إلَّا أَنْ يَكُونَ الْحَالِفُ مَالِكًا أَوْ يُضِيفَهُ إلَى مِلْكٍ وَالْإِضَافَةُ إلَى سَبَبِ الْمِلْكِ كَالتَّزَوُّجِ كَالْإِضَافَةِ إلَى الْمِلْكِ، فَإِنْ قَالَ لِأَجْنَبِيَّةٍ: إنْ دَخَلْتُ الدَّارَ فَأَنْت طَالِقٌ، ثُمَّ نَكَحَهَا فَدَخَلَتْ الدَّارَ لَمْ تَطْلُقْ، كَذَا فِي الْكَافِي". ( الْفَصْلُ الثَّالِثُ فِي تَعْلِيقِ الطَّلَاقِ بِكَلِمَةِ إنْ وَإِذَا وَغَيْرِهِمَا، ١ / ٤٢٠) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144103200265
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن