بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر بلوغت کی عمر یاد نہ ہو تو قضا نمازوں کا حساب کس عمر سے لگائیں گے؟


سوال

اگر بلوغت کی عمر یاد نہ ہو تو قضا نمازوں کا حساب کس عمر سے لگائیں گے؟

جواب

بلوغت کا تعلق علاماتِ بلوغت ظا ہر ہونے سے ہے؛ اگر پندرہ سال کی عمر سے پہلے ہی بلوغت کی علامات ( مثلاً: احتلام وغیرہ) میں سے کوئی علامت ظاہر ہوجائے تو اسی وقت سے نماز فرض ہو جاتی ہے، لیکن اگر کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو لڑکا اور لڑکی دونوں قمری اعتبار سے پندرہ سال کی عمر پوری ہونے پر بالغ سمجھے جائیں گے اور جس دن سولہواں سال شروع ہوگا اس دن سے ان پر نماز، روزہ وغیرہ فرض ہوگا، اور اسی حساب سے نمازیں قضا  کی جائیں گی۔لہذا بارہ سال کے بعد جس عمر میں بلوغت کا ظن غالب ہو اس عمر سے قضا کی جائے اور اگر مدت بالکل یاد نہ ہو اور کسی طرف ظن غالب نہ ہو تو پندرہ سال کی عمر کے بعد  ہونے والی قضا نمازوں کا اندازا کرکے قضا  کی جائیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 153):

"(بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال) والأصل هو الإنزال (والجارية بالاحتلام والحيض والحبل) ولم يذكر الإنزال صريحاً؛ لأنه قلما يعلم منها (فإن لم يوجد فيهما) شيء (فحتى يتم لكل منهما خمس عشرة سنةً، به يفتى) لقصر أعمار أهل زماننا  (وأدنى مدته له اثنتا عشرة سنةً ولها تسع سنين) هو المختار، كما في أحكام الصغار". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201203

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں