بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اگر امانت گن پوائنٹ پر چھین لی جائے تو کیا ضمان آئے گا یا نہیں؟


سوال

دس سال پہلے احمد نے زید کو کچھ رقم دی ہو کہ کسی کو پہنچانی ہے،  پہنچانے کے دوران وہ رقم گن پوائنٹ پر اس سے چھین لی گئی، احمد اور اس کے احباب نے کچھ رنجش تو دکھائی،  مگر اس وقت اس سے رقم کا مطابہ نہیں کیا،  مگر اب وہ اچانک  سے کہیں کہ وہ رقم لوٹائی جائے  اور  وہ جو رقم تھی وہ کسی اور ملک کی کرنسی تھی، اب اس صورت میں زید کیا کرے؟  اب تو کرنسی بھی بہت بڑھ گئی ہو گی، جواب ذرا تفصیل سے بتایئے گا!

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے امانت کے رکھوائے جانے اور اس کے ضائع ہونے کی صورت میں امین کے ضامن ہونے کے ضوابط بیان فرمائے ہیں، من جملہ ان ضوابط  میں سے ایک ضابطہ یہ بھی ہے کہ  امین کا امانت کے مال کو لے کر ایسے راستے پر جانا جس کا غیر مامون ہونا معروف ہو، موجبِ ضمان ہے، اسی طرح امانت رکھوانے والے کی اجازت کے بغیر  امانت کی چیز  کو ساتھ لے کر نکلنا بھی موجبِ ضمان ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں جس راستے سے گزرتے ہوئے امین سے وہ رقم گن پوائنٹ پر چھن لی گئی، اگر اس راستے یا علاقے کا غیر مامون ہونا مشہور و معروف ہو  اور وہاں اس قسم کے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہوں تو  ایسی صورت میں امین ضامن ہو گا اور اس کے ذمہ امانت کی رقم اپنی جیب سے لوٹانا ضروری ہو گا، اور اگر ایسا نہیں ہے بلکہ کسی امن والے راستے میں یہ حادثہ پیش آ گیا تو ایسی صورت میں امین ضامن نہ ہو گا۔

ملحوظ  رہے  کہ جس صورت میں امین پر ضمان لازم ہو گا اس صورت میں وہ حوالہ شدہ رقم کی مقدار کے بقدر ہی ضامن ہو گا،  کرنسی کے ریٹ کے بڑھ جانے سے اس مسئلہ  پر کوئی فرق نہ پڑے گا، یعنی جو کرنسی امانت رکھوائی تھی وہی کرنسی اتنی مقدار میں ادا کرے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 671):
"(و) المودع (له السفر بها) ولو لها حمل درر (عند عدم نهي المالك و) عدم (الخوف عليها) بالإخراج".

الفتاوى الهندية (4/ 342):
"إن أمكنه حفظ الوديعة في المصر الذي أمر بالحفظ فيها مع السفر بأن يترك عبدا له في المصر المأمور به أو بعض من في عياله، فإذا سافر بها والحالة هذه ضمن، وإن لم يمكنه ذلك بأن لم يكن له عيال أو كان، إلا أنه احتاج إلى نقل العيال فسافر فلا ضمان، كذا في التتارخانية".

الفتاوى الهندية (4/ 346):
"وإن سرقت الوديعة عند المودع ولم يسرق معها مال آخر للمودع لم يضمن عندنا، كذا في الكافي".

الفتاوى الهندية (4/ 343):
"ولو توجهت اللصوص نحو المودع فدفن الوديعة حتى لا تؤخذ من يده وفر من خوفهم ثم رجع فلم يظفر بالمكان الذي دفن الوديعة فيه إن أمكنه أن يجعل له علامة فلم يجعل ضمن، وإن لم يمكنه ذلك إن أمكنه العود في أقرب الأوقات بعد انقطاع الخوف فلم يعد ثم جاء ولم يجد الوديعة كان ضامنًا، كذا في الظهيرية".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200028

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں