بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

’’اپنے باپ کے گھرچلی جا‘‘وغیرہ الفاظ سے طلاق کاحکم


سوال

میری چچازادبہن کاشوہراورساس پچھلے دوسالوں سے چچازادبہن کوکہہ رہے ہیں کہ اس (چچازادبہن)کافیصلہ کرناہے،اورمیری پھوپھی اوردوسرے رشتہ داروں سے کہاکہ آپ لوگ آؤ میں نے بڑافیصلہ(طلاق دینی ہے)کرناہے،اورکئی دفعہ اسے (چچازادبہن کو)اپنے والدکے گھرجانے کوبھی کہتارہتاہے،اوراپنی بیوی کوبہت ستاتارہتاہے،اوراپنی ماں سے اپنے کام کرواتارہتاہے،اورڈیڑھ سال پہلے کہاکہ بڑی اورچھوٹی بیٹی وہ پالے گی اورچھوٹابیٹااپنے پاس رکھے گا،اورجب وہ (بیٹیاں)بھی بڑی ہوجائیں گی تومیں اپنے پاس رکھوں گا،قرآن وسنت کی روشنی میں بتائیں کہ کیاوہ اب  بھی میاں کے رشتے میں ہیں یاعلیحدہ ہوچکے ہیں۔

جواب

سوال میں مذکور الفاظ’’فیصلہ کرناہے‘‘،’’والدکے گھرجانے کاحکم دینا‘‘یااولادکی پرورش کے بارے میں کہناان میں کوئی لفظ ایسانہیں جس سے طلاق یاجدائی واقع ہوتی ہو،اس لیے نکاح بدستورقائم ہے اوردونوں میاں بیوی کے رشتے میں ہیں۔

البتہ ایسے الفاظ کے استعمال سے احترازکرناچاہیے،بعض کنائی الفاظ سے نیت  کی وجہ سے طلاق واقع ہوجاتی ہے،مثلاًیہ کہناکہ’’باپ کے گھرچلی جا‘‘اگر اس سے طلاق کی نیت کرتاہے توطلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔اس لیے شوہر سے اس کی نیت پوچھنی چاہیے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143701200023

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں