بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قعدہ اخیرہ کے بعد نماز توڑدی یا وضو ٹوٹ گیا / خروج بصنع المصلی


سوال

کسی نے قعدہ اخیرہ کے بعد نماز توڑ دی جان بوجھ کے یا اچانک سے وضو ٹوٹ گیا تو نماز  ہوگی یا نہیں؟ کوئی اختلاف ہو تو مدلل جواب دیں!

جواب

فقہاء احناف کے نزدیک  'سلام' کے الفاظ کے ساتھ نماز ختم کرنا واجب ہے۔

قعدہ اخیرہ کے بعد  قصداً نماز کے منافی کام  کرنے (مثلاً قہقہہ لگا دینے یا کسی  سے  بات کردینے وغیرہ)  سے نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ ختم ہوجائے گی؛ کیوں کہ واجب  (سلام کے ساتھ نماز ختم کرنا)  چھوٹ گیا ہے اور  وقت کے اندر  نماز  دہرانا لازم  ہے۔

قعدہ اخیرہ  کے بعد بغیر ارادے  کے وضو ٹوٹ  جائے  مثلاً ریح خارج ہوگئی یا منہ بھر کی قے آگئی تو ایسی صورت میں بنا  کی شرائط کا لحاظ کرتے ہوئے وضو کرکے اپنی نماز کو مکمل بھی کرسکتا ہے اور دوبارہ نماز دہرا بھی سکتا ہے۔

در اصل کتبِ حنفیہ میں  "الخروج بصنعه"  کے فرض ہونے یا نہ ہونے پر اختلاف مذکور ہے اور یہ اختلاف ائمہ احناف (امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد وغیرہ) سے منقول نہیں، بلکہ ان کے بیان کردہ مسائل سے اصول استنباط کرنے والے مستنبطین کا ہے،  جن میں سے امام بردعی کے نزدیک "الخروج بصنعه"فرض ہے، جب کہ  دیگر  ائمہ  مثلًا  امام کرخیؒ کے نزدیک فرض نہیں ہے۔ محققینِ اَحناف کے نزدیک  راجح قول اِمام کرخیؒ کا ہے۔

الفتاوى الهندية (1 / 71):

"و أما الخروج بصنع المصلي فليس بفرض هو الصحيح، هكذا في التبيين والعيني شرح الكنز وأكثر الكتب."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1 / 449):

"اعلم أن كون الخروج بصنعه فرضا غير منصوص عن الإمام، وإنما استنبطه البردعي عن المسائل الاثني عشرية الآتية قبيل باب مفسدات الصلاة، فإن الإمام لما قال فيها بالبطلان مع أن أركان الصلاة تمت ولم يبق إلا الخروج دل على أنه فرض، وصاحباه لما قالا فيها بالصحة كان الخروج بالصنع ليس فرضا عندهما. ورده الكرخي بأنه لا خلاف بينهم في أنه ليس بفرض، وأن هذا الاستنباط غلط من البردعي لأنه لو كان فرضا كما زعمه لاختص بما هو قربة وهو السلام؛ وإنما حكم الإمام بالبطلان في الاثني عشرية لمعنى آخر، وهو أن العوارض فيها مغيرة للفرض، فاستوى في حدوثها أول الصلاة وآخرها، فإن رؤية المتيمم بعد القعدة الماء مغيرة للفرض لأنه كان فرضه التيمم فتغير فرضه إلى الوضوء وكذا بقية المسائل، بخلاف الكلام فإنه قاطع لا مغير، والحدث العمد والقهقهة ونحوهما مبطلة لا مغيرة، وتمامه في ح. هذا، وقد انتصر العلامة الشرنبلالي للبردعي في رسالة المسائل البهية الزكية على الاثني عشرية بأنه قد مشى على افتراض الخروج بصنعه صاحب الهداية، وتبعه الشارح وعامة المشايخ وأكثر المحققين والإمام النسفي في الوافي والكافي والكنز وشروحه وإمام أهل السنة الشيخ أبو منصور الماتريدي."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201013

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں