بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی چھت بنانے کی وجہ سے پڑوس کی چھت متاثر ہو جائے تو کیا کریں؟


سوال

اگر کوئی  شخص دوسرے کے گھر کے متصل گھر بنائے جس کی وجہ سے دوسرے کے گھر کی چھت متاثر ہو جائے تو کیا اس شخص پر دوسرے شخص کی چھت کو ٹھیک کرانا اس پر شرعاً لازم ہے یا نہیں؟

جواب

احادیثِ مبارکہ میں پڑوسیوں کے حقوق کی بہت تاکید فرمائی گئی ہے،  ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ پڑوسی کو ایذا نہ دے۔ اس کے علاوہ متعدد روایات میں کئی حقوق بیان فرمائے گئے ہیں، ایک روایت میں آتا ہے کہ کوئی پڑوسی اپنے پڑوس والے کو اپنی دیوار پر لکڑی رکھنے سے منع نہ کرے۔

پہلے زمانے میں چوں کہ چھتیں پکی نہیں ہوا کرتی تھیں اور چھتوں پر شہتیر/گارڈر رکھے جاتے تھے جو درختوں کے تنے ہوا کرتے تھے تو  اگر کوئی شخص اپنی چھت ڈالنے کے لیے اپنے پڑوس کی دیوار پر گارڈر رکھنا چاہے تو اس کو منع کرنے سے منع فرمایا، اس حدیث کو محدثین نے  اس شرط کے ساتھ مقید کیا ہے جب اس کی دیوار کو ضرر  نہ پہنچتا ہو، اگر ضرر پہنچتا ہو تو اس کو منع کرنے کا حق ہو گا۔

لہذا اگر کوئی  شخص اپنی چھت بنانا چاہتا ہو اور اس کی چھت کے بنانے کی وجہ سے پڑوس والے مکان کی چھت کو اس کی کسی بے احتیاطی کی وجہ سے کوئی ضرر لاحق ہو جائے تو چوں کہ پڑوسی کو یہ ضرر اس کی وجہ سے پہنچا ہے؛ اس لیے وہ پڑوس کی چھت کو ٹھیک کرانے کا پابند ہو گا۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (16/ 231):
"أما الجدار الخاص: فذهب الحنفية والمالكية والشافعية في الجديد (وهو الأظهر عندهم) والحنابلة في وجه إلى أنه لايجوز للجار وضع الجذوع على جدار جاره بغير إذن مالكه، ولايجبر المالك عليه، ولكن يندب له؛ لخبر لا ضرر ولا ضرار. ولقول النبي عليه الصلاة والسلام : لايحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفسه".

الموسوعة الفقهية الكويتية (16/ 232):
"يرى الفقهاء أنه يمنع كل واحد من الشريكين مما يغير الجدار المشترك كغرز وتد، وفتح كوة، أو وضع خشبة لايتحملها إلا بإذن شريكه كسائر الأموال المشتركة؛ لأنّ ذلك انتفاع بملك غيره، وتصرف فيه بما يضرّ به، فلايستقل أحد الشريكين بالانتفاع".

تيسير العلام شرح عمدة الأحكام (ص: 521):
"ومن ذلك أن يريد الجار، أن يضع خشبة في جدار جاره. فإن لم يكن ثَم حاجة إلى ذلك، ينبغ لصاحب الجدار أن يأذن له، مراعاة لحق الجار. وإن كان ثَم حاجة لصاحب الخشب، وليس على صاحب الجدار ضرر من وضع الخشب، فيجب على صاحب الجدار أن يأذن له في هذا الانتفاع، الذي ليس عليه منه ضرر مع حاجة جاره إليه. ويجبره الحاكم على ذلك إن لم يأذن.
فإن كان ثَم ضرر، أو ليس هناك حاجة، فالضرر لا يزال بالضرر".

شرح رياض الصالحين (3/ 179):
"وأما ما ذكره في حديث أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ((لا يمنع جار جاره أن يغرز خشبة في جداره)) يعني: إذا كان جارك يريد أن يسقف بيته ووضع الخشب على الجدار، فإنه لايحل منعه؛ لأن وضع الخشب على الجدار لايضر، بل يزيده قوة، ويمنع السيل منه، ولا سيما فيما سبق حيث كان البناء من اللبن، فإن الخشب يمنع هطول المطر على الجدار فيحميه، وهو أيضاً يشده ويقويه، ففيه مصلحة للجار، وفيه مصلحة للجدار، فلايحل للجار أن يمنع جاره من وضع الخشب على جداره، وإن فعل ومنع؛ فإنه يجبر على أن يوضع الخشب رغماً عن أتفه".

الفقه الإسلامي وأدلته (6/ 378):
"ومن أمثلة تدخل ولي الأمر في الملكية: ما روي محمد الباقر عن أبيه علي زين العابدين أنه قال: «كان لسمرة بن جندب نخل في حائط (أي بستان) رجل من الأنصار، وكان يدخل هو وأهله فيؤذيه، فشكا الأنصاري ذلك إلى رسول الله صلّى الله عليه وسلم، فقال رسول الله لصاحب النخل: بعه، فأبى، فقال الرسول: فاقطعه، فأبى، فقال: فهبه ولك مثله في الجنة، فأبى، فالتفت الرسول إليه وقال: أنت مضار، ثم التفت إلى الأنصاري، وقال: اذهب فاقلع نخله» ففي هذه الحادثة ما يدل على أن النبي صلّى الله عليه وسلم لم يحترم الملكية المعتدية، وهو القائل في القضاء في حقوق الارتفاق: «لا ضرر ولا ضرار»". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144104200299

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں