بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اپنی بیوی کو ماں جیسی کہنےکا حکم


سوال

اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا آپ میری ماں جیسی ہو تو کیا طلاق واقع ہوجاتی ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر ایسا جملہ استعمال کرتے وقت  طلاق کی نیت کی ہو تو ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائےگی، اور نکاح ٹوٹ جائے گا اور  دوبارہ ایک ساتھ رہنے کے لیے نیا   نکاح کرنا ضروری ہے، اور اگر ظہار کی نیت کی ہو تو ظہار ہوجائے گا، اب دوبارہ ایک ساتھ رہنے سے پہلے کفارہ ادا کرنا ضروری ہوگا، اور کفارہ یہ ہے کہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے، اگربڑھاپے، ضعف، یا بیماری کے باعث  مسلسل دوماہ روزے  رکھنے کی طاقت نہ ہو  تو ساٹھ مساکین کو دو وقت کا کھانا کھلانا ہوگا، روزہ رکھنے  کی طاقت ہو تو روزے ہی رکھنے ہوں گے، کفارہ ادا کرنےکےبعد بیوی کےقریب جانا درست ہوگا۔

الدر المختار  میں ہے:

"(وإن نوى بأنت علي مثل أمي) أو كأمي وكذا لو حذف علي، خانية (براً أو ظهاراً أو طلاقاً صحت نيته) ووقع ما نواه؛ لأنه كناية (وإلا) ينو شيئاً أو حذف الكاف، ويكره قوله: أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه."

و في الرد:

"(قوله: حذف الكاف) بأن قال: أنت أمي، ومن بعض الظن جعله من باب زيد أسد، در منتقى عن القهستاني، قلت: ويدل عليه ما نذكره عن الفتح من أنه لا بد من التصريح بالأداة، (قوله: لغا )؛ لأنه مجمل في حق التشبيه، فما لم يتبين مراد مخصوص لايحكم بشيء، فتح (قوله: ويكره الخ ) جزم بالكراهة تبعاً للبحر و النهر، والذي في الفتح: وفي أنت أمي لايكون مظاهراً، وينبغي أن يكون مكروهاً، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته: يا أخية مكروه، وفيه حديث رواه أبو داود: أن رسول الله سمع رجلاً يقول لامرأته: يا أخية، فكره ذلك ونهى عنه، ومعنى النهي قربه من لفظ التشبيه، ولولا هذا الحديث لأمكن أن يقول: هو ظهار؛ لأن التشبيه في أنت أمي أقوى منه مع ذكر الأداة، ولفظ يا أخية استعارة بلا شك، وهي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليعين ظهاراً حيث لم يبين فيه حكماً سوى الكراهة والنهي، فعلم أنه لا بد في كونه ظهاراً من التصريح بأداة التشبيه شرعاً، ومثله أن يقول لها: يا بنتي أو يا أختي ونحوه."

(باب الظهار، ج:3، ص:470، ط:ایچ ایم سعید) 

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"إذا قال الزوج لامرأته: أنت علي كظهر أمي) وكذلك لو حذف (علي) كما في النهر (فقد حرمت عليه: لايحلّ له وطؤها ولا لمسها ولا تقبيلها) وكذلك يحرم عليها تمكينه من ذلك (حتى يكفر عن ظهاره)."

(کتاب الظهار، ج:2، ص:191)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201229

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں