بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اٹیچڈ باتھ روم (attached bathroom) کا حکم


سوال

 گھر میں آج کل رواج کے مطابق کمرے کے ساتھ اٹیچڈ باتھ بن رہے ہیں۔ جن سے میاں بیوی کی پرائیویسی بھی رہتی ہے۔ چند دوست فرماتے ہیں کہ گھر میں اٹیچڈ باتھ شرعاً نہیں بنانا چاہیے؛ کیوں کہ باتھ روم اور واش روم جنات کی آماج گاہ ہوتے ہیں!

جواب

نبی کریم ﷺ جب قضاءِ حاجت فرماتے تو دور تشریف لے جاتے تھے؛ اس لیے فطری حیا کے قریب اور بہتر  طریقہ یہ ہے کہ بیت الخلا رہائشی کمرے سے جدا اور فاصلے پر ہو کہ قضاءِ حاجت سے فراغت کی آواز اور بدبو کمرے میں محسوس نہ ہو، نیز بیت الخلا اور غسل خانہ بھی دونوں جدا جدا ہوں۔  تاہم جگہ  کی تنگی  یا سیورج کے مسائل کے باعث اٹیچڈ باتھ روم بنایا جائے تو شرعاً اس کی اجازت ہے۔ بوقتِ ضرورت (مثلاً رات کے وقت) رسول اللہ ﷺ کا گھر میں (لکڑی کے پیالے میں) قضاءِ حاجت سے فراغت حاصل کرنا بھی منقول ہے۔ (سنن ابی داؤد، نسائی)

بہرحال اگر اٹیچڈ باتھ روم بنانا ہو تو اسے صاف ستھرا رکھا جائے، اور داخل ہوتے اور نکلتے وقت مسنون دعاؤں کا اہتمام کیا جائے تو ان شاء اللہ جنات کے شر سے حفاظت رہے گی۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104201085

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں