بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اونٹ کا پیشاب کیوں حلال اور گائے کا پیشاب کیوں حرام؟


سوال

کیا اونٹ کے پیشاب سے علاج حلال ہے جیسا کہ بخاری اور مسلم کی حدیث میں ملتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو ہندو کہتے ہیں کہ: جب اونٹ کا پیشاب حلال ہے تو گائے کا کیوں حلال نہیں ہے؟

جواب

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک خاص قوم کو ایک خاص بیماری کی وجہ سے اونٹ کے پیشاب کے ذریعے علاج کا حکم فرمایا تھا،  جس کی وجہ سے بعض ائمہ نے اونٹ کے پیشاب کو پاک اور اس کے استعمال کو جائز بتایا ہے، لیکن حنفیہ نے اونٹ کے پیشاب کو بھی مطلقا ناپاک قرار دیا ہے، اور روایات کی درج ذیل توجیہات کی ہیں:

۱: یہ حکم عمومی نہیں تھا، بل کہ خاص اس قوم کے ساتھ مخصوص تھا۔

۲: حالت اضطرار یعنی ایسی مجبوری کی حالت کہ حرام چیز کے علاوہ کوئی دوا کارگر نہ ہو تو ایسے مواقع پر شریعت نے بقدر ضرورت حرام کے  استعمال کی اجازت دی ہے۔

۳: رسول اللہ ﷺ نے ان کو پیشاب پینے کا نہیں، بل کہ پیشاب کے صرف خارجی استعمال کا حکم دیا تھا۔

رہی یہ بات کہ صرف اونٹ کے پیشاب کے استعمال کی اجازت دینا، اور اس کی بنیاد پر بعض ائمہ کے ہاں اونٹ کے پیشاب کا پاک اور قابل استعمال ہونا، تو  بہ حیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ جس چیز کو رسول اللہ ﷺ حلال بتائیں وہ حلال ہے اور جس کو رسول اللہ ﷺ حرام بتائیں وہ حرام ہے؛ اس لیے ہم بغیر کسی فلسفے کی کھوج لگانے کے  یہی کہیں گے کہ: اونٹ کے پیشاب کے استعمال کی اجازت دی تو بعض ائمہ نے اس کے پاک ہونے کی رائے اختیار کی اور گائے کے پیشاب کو رسول اللہ ﷺ نے پاک اور قابلِ استعمال قرار نہیں دیا تو ہم بھی اس کو پاک اور قابل استعمال نہیں سمجھیں گے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143807200029

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں