بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کو ولی اللہ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟


سوال

اگر کسی شخص نے اپنی اولاد کو ولی اللہ بنانا ہو تو اس کے لیے کیسے تربیت کرنی ہوگی؟ اور کیا کرنا ہوگا؟ برائے کرم تفصیلی جواب مرحمت فرمائیے،  ایسا جواب نہ ہو کہ آج کے دور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنانے والا ہی ولی اللہ ہے،  مفصل جواب دیجیے!

جواب

آپ کے سوال کے جواب سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری معلوم ہوتاہے کہ دین میں ولی اللہ کسے کہتے ہیں؟

  دین کے پانچ بنیادی شعبے ہیں: عقائد، عبادات ، معاملات ، معاشرت (رہن سہن) اور اخلاقیات۔  سچا دین دار وہی ہے جو ان تمام شعبوں پر عمل کرتا ہو اور ایسا ہی شخص صحیح معنوں میں ولی اللہ کہلا نے کا مستحق ہے ۔

بدقسمتی سے دین کی صحیح سمجھ نہ ہونے کی بنا پر ہمارے معاشرے میں ولایت کے مختلف پیمانے رائج ہوگئے ہیں، جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں، مثلا : یوں سمجھا جاتا ہے کہ ولی وہ ہوتا ہے جو آسمان میں اڑ کر اور پانی پر چل کر دکھائے، جس سے ہمیشہ خلاف عادت واقعات  اور کرامات صادر ہوتی ہوں وغیرہ وغیرہ۔اہل اللہ سے  کرامات صادر ہونے کا انکار نہیں، لیکن ولایت کے لیے کرامت کا صدور ضروری نہیں، ولایت کے اس طرح کے پیمانے خود ساختہ ہیں، ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔

ولی اللہ وہی ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں دینی احکام اور تعلیمات نبویہ کو مقدم رکھے، اور ولایت کے لیے سب سے بہترین پیمانہ اور نمونہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے، آپ کے سوال کے انداز سے ہمیں محسوس ہوا کہ اس جملے کی آپ کے تئیں کوئی اہمیت نہیں کہ آج کے دور میں ولی اللہ وہی ہے جوحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنائے، یہ انداز نامناسب ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ صرف آج کے دور میں ہی نہیں ، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملنے کے بعد سے قیامت تک ولی اللہ بننے اور اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے کا اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں، سنتوں کے مطابق زندگی ہی نجات کا ذریعہ ہے، اس لیے اس حوالے سے ذہن صاف ہونا چاہیے۔

اولاد کو اللہ کا ولی بنانے کا یہی طریقہ ہے کہ ان کی  صحیح دینی تعلیم  کے ساتھ تربیت کا بھی ایسا  اہتمام کیا جائے ، جس سے ان کی زندگی دینی احکام میں ڈھل جائے،  اس کے لیے انہیں بنیادی دینی احکام سکھائیے، قرآن کریم بسہولت وحسب استعداد حفظ ہوسکے تو کیا کہنے، ورنہ کم از کم قرآن کریم دیکھ کر پڑھنا سکھائیے۔

انہیں نیک ماحول فراہم کیجیے، ان کے دوستوں پر نگاہ رکھیے اور کوشش کیجیے کہ غلط دوستوں سے دور رہیں، اور انہیں نیک بنانے کے لیے خود بھی نیک بننے کی کوشش کیجیے؛ کیونکہ بچے ماں باپ کی باتوں سے زیادہ ان کے عمل سے متاثر ہوتے ہیں۔

ساتھ ساتھ  ان کے لیے خود بھی دعائیں کیجیے اور علماء ومشایخ ، بزرگانِ دین اور نیک لوگوں کی مجلسوں میں انہیں ساتھ لے جائیے اور ان سے اولاد کے لیے دعائیں کروائیے۔

اولاد کی تربیت والدین کی  شرعی ذمہ داری ہے، جس کے لیے دین نے مفصل احکام دیئے ہیں، لیکن ویب سائٹ کا مختصر فتوی ان تفصیلات کا متحمل نہیں، لہذا اس حوالے سے آگاہی کے لیے حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار رحمہ اللہ کی کتاب "اسلام اور تربیت اولاد "(ناشر مکتبہ الحبیب کراچی)  خرید کر اس کا مطالعہ کیجیے اور عمل کی کوشش کیجیے، فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144010200944

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں