بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تحفہ وغیرہ دینے میں اولاد میں برابری ضروری ہے


سوال

ایک آدمی ہے، اس کی  تین بیویاں ہیں،  پہلی بیوی سے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہے ۔ اور دوسری بیوی سے تین بیٹے  اور پانچ بیٹیاں ہیں اور تیسری بیوی سے سات بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں، اور اس آدمی کی دو بہنیں  بھی ہیں۔

اب ہوا یہ کہ اس آدمی نے اپنے انتقال سے پہلے اپنی  میراث صرف بیٹوں میں تقسیم کی  اور بیٹیوں کو مال کا کچھ حصہ نہیں دیا اور صورتِ حال یہ تھی  کہ اس آدمی کی ایک بہن کا انتقال ہوچکا تھا اور دوسری بہن زندہ تھی اب اس آدمی کے مرنے کے بعد ان کے بیٹوں کو یہ علم ہوا کہ ہماری بہنوں اور میت کی بہنوں  کو میراث کا حصہ نہیں ملا ہے۔ اب فقہاء اس میراث کے صحت اور عدم صحت کے بارے میں کیا راے پیش کرتے ہیں؟

نوٹ:  میت کی  تقسیم شدہ میراث میں سے صرف ایک بھائی نے اپنی  جائیداد کا حصہ فروخت کیا اور باقی بھائیوں کے حصے اب بھی جائیداد کے صورت میں باقی ہیں۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے اپنی جائیداد اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹوں میں تقسیم کرکے ان کی ملکیت اور مکمل تصرف و اختیار میں دے دی تھی اور اپنا مکمل اختیار اس جائیداد سے ختم کرلیا تھا تو مذکورہ جائیداد بیٹوں کی ملکیت ہوگئی تھی، اور مذکورہ شخص کے انتقال کے بعد اس یہ جائیداد اس کا ترکہ شمار نہیں ہوگی، اگرچہ یہ مرحوم کی طرف سے ناانصافی کا اقدام تھا ؛ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں تحفہ یا ہدیہ وغیرہ دیتے وقت اولاد میں برابری کا حکم دیا ہے اور اسی کی وجہ سے فقہائے کرام نے اولاد میں برابری کرنے کو واجب قرار دیا ہے، جیسا کہ فتاوی شامی( ٤/ ٤٤٤ ط سعید) و دیگر کتبِ فقہ میں مذکور ہے۔

تاہم اپنے بیٹوں کی ملکیت میں دے دینے کی وجہ سے مذکورہ جائیداد شرعاً بیٹوں کی ملکیت ہو گئی تھی اور مذکورہ شخص کے انتقال کے بعد وہ جائیداد ان کا ترکہ  شمار نہیں ہوگی اور نہ ہی ان کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگی۔

البتہ اگر والد مرحوم نے اپنی تمام جائیداد محض بیٹوں کے نام کی تھی اور ساری زندگی اپنے ہی تصرف و اختیار میں رکھی تھی تو ایسی صورت میں انتقال کے ساتھ ہی مرحوم کی جانب سے کی گئی تقسیم و نامزدگی شرعاً لائقِ عمل نہیں رہی ؛ لہذا اب مذکورہ جائیداد ان کے تمام شرعی ورثاء میں حصص شرعیہ کے اعتبار سے تقسیم کی جائے گی اور مرحوم کی تینوں بیواؤں میں کل جائیداد کا آٹھواں حصہ برابر برابر تقسیم ہوگا ، جب کہ باقی ماندہ کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو 40 حصوں میں تقسیم کر کے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو دو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ اور بیٹوں کی موجودگی میں  مرحوم کی بہنیں محروم ہوجائیں گی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں