بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انگوٹھی یا لاکٹ وغیرہ پر اللہ کا نام یا دعائیہ کلمات وغیرہ نقش کروا کر پہننے کا حکم


سوال

اللہ کا نام یا دعائیہ کلمات انگوٹی لوکٹ وغیرہ پر نقش کروا کر پہنی جاسکتی ہے؟

جواب

الگوٹھی یا لاکٹ وغیرہ میں اللہ تعالیٰ کا نام مبارک یا دعائیہ کلمات نقش کرواکر پہننا جائز ہے، البتہ  جس انگوٹھی یا لاکٹ وغیرہ  پر ایسے نقش ہوجود ہوں اسے پہن کر بیت الخلا میں جانا مکروہ ہے، حدیثِ  مبارک  میں آتا ہے کہ آپ ﷺ جب قضائے حاجت کے لیے تشریف لے جاتے تو اپنی انگوٹھی اتار لیتے تھے، اس لیے اس کا نقش ’’محمد رسول اللہ‘‘  تھا،  لہذا مذکورہ انگوٹھی اتار کر بیت الخلا سے باہر رکھ کر  یا (باہر رکھنے کی کوئی صورت نہ ہو) جیب میں یا کپڑے وغیرہ میں چھپاکر بیت الخلا میں جاناچاہیے۔

واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ایک انگوٹھی پہننا ثابت ہے، اس سے زیادہ ثابت نہیں، لہٰذا مرد کے لیے ساڑھے چار ماشہ چاندی کی مقدار کے اندر اندر انگوٹھی پہننا جائز ہے، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے، اور ایک سے زائد انگوٹھیاں پہننا مردانہ وقار کے بھی خلاف ہے، بلکہ فقہاءِ کرام  نے عام شخص کے لیے انگوٹھی نہ پہننے کو اولیٰ لکھا ہے۔  جہاں تک لاکٹ وغیرہ کی بات ہے تو یہ مرد کے لیے جائز نہیں ہے۔ خواتین کے لیے ایک سے زائد انگوٹھیاں اور لاکٹ وغیرہ زیور استعمال کرنے کی اجازت ہے۔

" (قوله: ويكره الدخول للخلاء ومعه شيء مكتوب الخ)؛ لما روى أبو داود والترمذي عن أنس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء نزع خاتمه: أي؛ لأن نقشه محمد رسول الله. قال الطيبي: فيه دليل على وجوب تنحية المستنجي اسم الله تعالى واسم رسوله والقرآن اهـ وقال الأبهري: وكذا سائر الرسل اهـ وقال ابن حجر: استفيد منه أنه يندب لمريد التبرز أن ينحى كل ما عليه معظم من اسم الله تعالى أو نبي أو ملك، فإن خالف كره؛ لترك التعظيم اهـ وهو الموافق لمذهبنا كما في شرح المشكاة. قال بعض الحذاق: ومنه يعلم كراهة استعمال نحو إبريق في خلاء مكتوب عليه شيء من ذلك اهـ وطشت تغسل فيه الأيدي، ثم محل الكراهة إن لم يكن مستوراً، فإن كان في جيبه؛ فإنه حينئذٍ لا بأس به. وفي القهستاني عن المنية: الأفضل أن لا يدخل الخلاء وفي كمه مصحف إلا إذا اضطر، ونرجو أن لا يأثم بلا اضطرار اهـ وأقره الحموي. وفي الحلبي: الخاتم المكتوب فيه شيء من ذلك إذا جعل فصه إلى باطن كفه، قيل: لا يكره، والتحرز أولى". ( حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 54)

"عن أبي ریحانة قال: نهى رسول الله صلی الله علیه وسلم عن عشر: ... ولبوس الخاتم إلا لذي سلطان. رواه أبوداؤد والنسائي". (مشکاة المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثاني، ص:376. ط: قدیمي)

"(وترك التختم اهـ ) وفي البستان عن بعض التابعين: لايتختم إلا ثلاثة: أمير أو كاتب أو أحمق اهـ".  (الدر المختار مع شرحه رد المحتار، كتاب الحظر والإباحة، فصل في اللبس: 6/361، ط: سعيد)  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144106200831

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں