بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

انگلیوں پر ذکر کرنے کا طریقہ


سوال

انگلیوں پر تو ذکر گننا مستحب ہے لیکن اس کا طریقہ کیا ہے؟ انگلیوں کے پوروں پر یا وہ جو خاص طریقہ ہے جس کے بعض ہندسے احادیث میں ہیں جیسے اشارہ بالسبابہ والی حدیث میں 53 کاعدد یعنی یہ خاص طریقہ کیسا ہے اور اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ذکر و اذکار میں مقصود بالذات تسبیح باری تعالی ہوتی ہے اور شمار کرنا مقصود اصلی نہیں ہوتا، اس وجہ سے احادیث میں مختلف طریقوں سے شمار کرنے کا تذکرہ ملتا ہے، ان میں سے ایک طریقہ انگلی سے شمار کرنے کا بھی منقول ہے، البتہ ایک روایت کے علاوہ باقی تمام روایات میں دائیں یا بائیں ہاتھ کی تعیین منقول نہیں، جس کی وجہ سے سے فقہاء و محدثین نے دونوں ہاتھوں میں سے کسی بھی ہاتھ سے شمار کرنے کی اجازت دی ہے، البتہ دائیں ہاتھ سے شمار کرنے کو افضل قرار دیا ہے ،  لہذا اگر کوئی بائیں ہاتھ سے شمار کرتا ہے تو اس کے عمل کو خلافِ شرع قرار دینا یا منع کرنا درست نہیں۔

باقی  جن روایات میں انگلیوں پر گننے کا ذکر ہے وہاں ''عقد'' کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، '' عقدِ اَنامل'' گنتی کا مستقل ایک طریقہ اور فن ہے، عرب کے عرف میں ''عقدِ اَنامل'' کا فن تقریباً ہر ایک کو حاصل تھاصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی اس فن کو جانتے تھےاور اس فن میں دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے گنتی شروع ہوتی ہے، اور کافی گنتی کے بعد بائیں ہاتھ کی انگلیوں پر گنتی شروع ہوتی ہے   باقی جو سوال میں مذکور اشارہ بالسبابۃ  کو لے کر ۵۳ جو عدد ذکر کیا ہے اس کا تسبیح گننے سے کوئی  تعلق نہیں ہے اور احادیث میں تسبیح گننے کے لیے کوئی خاص طریقہ وارد نہیں ہواہے۔ 

مشکاۃ المصابیح میں ہے۔ 

"وعن يسيرة رضي الله عنها وكانت من المهاجرات قالت: قال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: «عليكن بالتسبيح والتهليل والتقديس واعقدن بالأنامل فإنهن مسؤولات مستنطقات ولا تغفلن فتنسين الرحمة» ." رواه الترمذي وأبو داود

( کتاب الدعوات باب ثواب التسبیح و التحمید جلد ۲ ص : ۷۱۶ ط : المکتب الاإسلامی ) 

سنن ترمذی میں ہے۔ 

"حدثنا محمد بن عبد الأعلى قال: حدثنا عثام بن علي، عن الأعمش، عن عطاء بن السائب، عن أبيه، عن عبد الله بن عمرو، قال: «رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يعقد التسبيح بيده»: «هذا حديث حسن غريب من هذا الوجه من حديث الأعمش عن عطاء بن السائب» وروى شعبة، والثوري، هذا الحديث عن عطاء بن السائب، بطوله. وفي الباب عن يسيرة بنت ياسر."

( ابواب الدعوات باب ماجاء فی عقد التسبیح بالید جلد ۵  ص :۵۲۱ ) 

سنن ابی داؤد میں ہے۔ 

"حدثنا عبيد الله بن عمر بن ميسرة، ومحمد بن قدامة، في آخرين، قالوا: حدثنا عثام، عن الأعمش، عن عطاء بن السائب، عن أبيه، عن عبد الله بن عمرو، قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يعقد التسبيح»، قال ابن قدامة: بيمينه."

( ابواب الوتر  باب التسبیح بالحصی جلد  ۲  ص : ۸۱ ط : المکتبۃ العصریۃ صیدا )

و فیہ ایضا 

"عن عائشة بنت سعد بن أبي وقاص ، عن أبيها، أنه دخل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على امرأة وبين يديها نوى - أو حصى - تسبح به، فقال: «أخبرك بما هو أيسر عليك من هذا - أو أفضل -»، فقال: «سبحان الله عدد ما خلق في السماء، وسبحان الله عدد ما خلق في الأرض، وسبحان الله عدد ما خلق بين ذلك، وسبحان الله عدد ما هو خالق، والله أكبر مثل ذلك، والحمد لله مثل ذلك، ولا إله إلا الله مثل ذلك، ولا حول ولا قوة إلا بالله مثل ذلك»."

( ابواب الوتر باب التسبیح بالحصی جلد ۲ ص : ۸۰ ط : المکتبۃ العصریۃ صیدا )

صحٰیح ابن حبان میں ہے۔ 

"عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يحب التيامن ما استطاع: في طهوره، وتنعله، وترجله قال شعبة: ثم سمعت الأشعث بواسط يقول: "يحب التيامن وذكر شأنه كله ثم قال: شهدته بالكوفة يقول: يحب التيامن ما استطاع."

( باب سنن الوضوء ذکر ما للمرء اَن یستعمل فی اسبابہ کلہا جلد ۳ ص : ۳۷۱ ط : مؤسسۃ الرسالۃ )

شرح المشکاۃ للطیبی  میں ہے۔  

"((وعقد ثلاثة وخمسين)) أي عقد باليمني عقد ثلاثة وخمسين، وذلك بأن يقبض الخنصر والبنصر والوسطى، ويرسل المسبحة، ويضم إليها الإبهام مرسلة. وللفقهاء في كيفية عقدها وجوه، أحدها ما ذكرناه. والثاني: أن يضم الإبهام إلي الوسطى المقبوضة كالقابض ثلاثة وعشرين، فإن الزبير رواه كذلك، والثالث: أن يقبض الخنصر والبنصر، ويرسل المسبحة، ويحلق الإبهام والوسطى كما رواه وائل بن حجر. ((وأشار بالسبابة)) أي رفعها عند قول: ((إلا الله))۔۔۔فيه دليل علي أن في الصحابة من يعرف هذا العقد والحساب المخصوص."

( کتاب الصلاۃ باب التشہد  جلد ۳ ص : ۱۰۳۱ ط : مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز )

فقط و اللہ اَعلم 


فتوی نمبر : 144004201503

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں