بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قرضہ کی فراہمی مرابحہ کے طریقہ پر


سوال

میں ایک گورنمنٹ ادارے میں کام کرتا ہوں، جہاں ہمیں مرابحہ کے طریقہ پر قرضہ  کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ اسلامی تمویلی طریقہ کے مطابق ہے۔ اس ادارےنے ایک مفتی صاحب کو بھی  اس کام کے لیے مدعو کیا ہوا ہے۔

اس قرضہ کی سہولت  محسوسی اثاثے  خریدنے کے لیے ہی دی جاتی ہے، جس میں ملازم ادارے کا وکیل ہوگا اس چیز کے خریدنے میں، اور پھر جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ دو ہفتوں میں خریدے گا، اوراگر  یہ  تین ہفتے میں نہ خرید سکا تو رقم ادارے کو واپس کرنا ہوگی۔ اور یہ قرضہ 60 مہینوں میں واپس کرنا ہوگا اقساط میں، اور پھر اس قرضہ میں کائبور بھی شامل ہوگا۔ اس اثاثہ  کے تمام اخراجات مستعمل کے ذمہ ہوں گے۔ کیا یہ طریقہ شرعاً درست ہے؟

جواب

"مرابحہ" کے اس مذکورہ طریقہ پر قرضہ کی سہولت فراہم کرنا  شرعی اصولوں  کے مطابق نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس میں خریدو فروخت کے ایک طریقہ کو  قرضہ اور سرمایہ کی فراہمی کے لیے بطورِ حیلہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن اس میں کئی عقود  باہم مربوط و مشروط ہیں، اور ایک عقد کی تکمیل اور اس کے لوازم پورے کرنے سے پہلے دوسرا عقد لازم آرہاہے، جو کہ شرعاً ناجائز ہے۔ مثلاً: اس صورت میں ملازم کا خریداری کے لیے ادارے کا وکیل بننا، لیکن مبیع (خریدی گئی چیز) پر ادارے کا ضمان نہ آنا اور پہلے عقد کے ساتھ ہی مشروط طور پر وکیل کا اس ادارے سے چیز کا خریدنا۔ مزید خرابی یہ کہ سودی مارکیٹ کے ریٹ  سے اپنا نفع متعین کرنا؛ تاکہ  سرمایہ کار کو سود جتنا نفع ملے، یہ بھی درست نہیں؛ لہذا اس طریقہ سے قرضہ لینا شرعاً جائز نہیں ۔ 

'' أن لا یکون علی وجه التتبع علی الرخص، فإنه لا یجوز للعامي إجماعاً، کما صرح به ابن عبدالبر من أنه لا یجوز للعامي تتبع الرخص إجماعاً''. (شرح تحریر ۳/ ۳۵۱، جواهر الفقه ۱/ ۱۶۶)
ترجمہ: مذہبِ غیر کی طرف عدول محض رخصت طلب کرنے کی غرض سے نہ ہو؛ کیوں کہ عامی کے لیے بالاجماع ایسا کرنا جائز نہیں ہے، جیسا کہ ابن عبدالبر رحمۃ اﷲ علیہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ عامی کے لیے رخصت ڈھونڈ ڈھونڈ کر عمل کرنا بالاجماع جائز نہیں ہے۔
 آپﷺ کا ارشاد ہے:
''عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُما عَنْ أَبِيهِ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَفْقَتَيْنِ فِي صَفْقَةٍ وَاحِدَةٍ''.
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ  نے ایک ہی معاملہ میں دو معاملے (یا زیادہ) (Contracts) کے جمع کرنے سے منع فرمایا ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200433

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں