بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اننچاس کروڑ کے ثواب کی تحقیق


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تبلیغی جماعت والوں کا اللہ کے راستہ میں نکلنے پر ایک عمل کا ثواب اننچاس کروڑ بتلانا، کیا احادیث سے ثابت ہے؟

جواب

مذکورہ قول دو حدیثوں کو جمع کرکے ذکر کیا جاتا ہے،  جس کی تفصیل اور اسنادی حیثیت ذیل میں ذکر کی جاتی ہے:

1- ایک حدیث سنن ابنِ ماجہ کی ذکرکی جاتی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:

" حدثنا هارون بن عبد الله الحمال ثنا ابن أبي فديك عن الخليل بن عبد الله عن الحسن عن علي بن أبي طالب وأبي الدرداء وأبي هريرة وأبي أمامة الباهلي وعبد الله ابن عمر وعبد الله بن عمرو وجابر بن عبد الله وعمران بن الحصين كلهم يحدث عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه قال: من أرسل بنفقة في سبيل الله وأقام في بيته فله بكل درهم سبعمائة درهم، ومن غزا في سبيل الله وأنفق في وجه ذلك فله بكل درهم سبعمائة ألف درهم، ثم تلا هذه الآية: {والله يضاعف لمن يشاء}". (سنن ابن ماجه، کتاب الجهاد، باب فضل النفقة في سبیل الله: ۲/۹۲۲، ط: دارالفکر بیروت)

2- دوسری حدیث امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے:

"حدثنا أحمد بن عمرو بن السرح حدثنا ابن وهب عن يحيى بن أيوب وسعيد بن أبى أيوب عن زبان بن فائد عن سهل بن معاذ عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن الصلاة والصيام والذكر تضاعف على النفقة في سبيل الله بسبعمائة ضعف»". (سنن أبي داؤد، باب تضعیف الذکر في سبیل الله:۲/۳۱۶، ط:دارالکتاب العربی)

پہلی حدیث میں مجاہد کے نفقہ کا اجر سات لاکھ بتایا گیا ہے، اور دوسری حدیث میں نماز وغیرہ عباداتِ بدنیہ کا اجر نفقہ  فی سبیل اللہ کے اجر سے سات سو گنا زیادہ بیان فرمایا گیا ہے، اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ نماز کا اجر اننچاس کروڑ ہے،  اس لیے کہ سات لاکھ  کو سات سو  میں ضرب دینے سے یہی حاصل ضرب بن جاتا ہے۔

مگر ان دو روایتوں میں کلام ہے:

1- ایک روایت میں خلیل  بن عبداللہ مجہول راوی ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’تقریب التہذیب‘‘  میں ان کے متعلق لکھا ہے: 

"الخلیل بن عبدالله مجهول، من السابعة". (تقریب التهذیب،ص: ۲۳۱)

2-  حسن بصری رحمہ اللہ کی تدلیس کی وجہ سے  اس روایت پر منکر کا حکم لگایا گیا ہے ۔

دوسری روایت میں دو ضعیف راوی ہیں،  جن کی وجہ سے یہ سند بھی ضعیف ہے،  زبان بن فائد ضعیف راوی ہیں، حافظ ابن حجر ان کے متعلق لکھتے ہیں:

 "زبان بن فائد بالفاء المصري أبو جوين بالجيم مصغرًا الحمراوي بالمهملة ضعيف الحديث مع صلاحه وعبادته من السادسة مات سنة خمس وخمسين". (تقریب التهذیب ،ص:۲۴۸، رقم : ۱۹۸۵)

دوسرے راوی سہل بن معاذ ہیں، ان کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:

"سهل بن معاذ بن أنس الجهني، نزیل مصر، لابأس به إلا في روایات زبان عنه من الرابعة". (تقریب التهذیب:۲۹۲، رقم : ۲۲۶۷)

قطع نظر اس بات کے ان دو روایتوں پر کلام کیا گیا ہے، یہ اشکال ہوتا ہے کہ ابوداؤد کی حدیث میں "یضاعف علی النفقة في سبیل الله " میں نفقہ سے غازی کا نفقہ مراد لینے پرکوئی قرینہ موجود نہیں، عموماً روایات میں ’’نفقہ فی سبیل اللہ‘‘ سے مراد گھر  میں بیٹھ کر کوئی چیز اللہ کے راستے میں خرچ کرنا مراد ہوتا ہے، جیسا کہ ابن ماجہ ہی کی حدیث میں ہے"من أرسل بنفقة في سبیل الله وأقام في بیته".(مقالات امین :۷۰)

لہذا  جب تک تصریح  یا واضح قرینہ نہ ہو کہ "یضاعف علی النفقة" سے نفقۂ غازی مراد ہے، اس وقت تک اننچاس کروڑ کی نسبت حدیث کی طرف کرنا صحیح نہیں، چاہے ایک ہی حدیث ہو یا دو حدیثوں کے مجموعہ کی صورت میں ہو ۔ (مقالات امین :۷۰) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں