میرے پاس دو انشورنس پالیسیاں تھیں، جس میں پیسہ صرف موت یا کسی حادثے کی بنا پر ہی ملتا ہے۔
اس کے علاوہ میں دوہزار روپے ہر ماہ جمع کرتا تھا، اس پیسے کو وہ کمپنی شیئر مارکیٹ میں لگاتی تھی، اور کچھ شیئر میرے اکاؤنٹ میں جمع کرادیتی تھی، میں نے پورے بیس سال میں دو لاکھ چالیس ہزار روپے جمع کیے؛ کیوں کہ وہ کمپنی مجھے شیئر دیا کرتی تھی، اس لیے ان کی قیمت گھٹتی اور بڑھتی رہتی تھی۔ بیس سال کے بعد جب میں نے یہ پالیسی بند کرائی تو مجھے دو لاکھ تیئس ہزار کا نفع ہوا۔ کیوں کہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ وہ کمپنی کس طرح کی کمپنیوں سے شیئر خریدتی تھی، یعنی ان کا کاروبار شریعت کے مطابق تھا یا نہیں، تو کیا میرے لیے یہ نفع جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز نہیں ہے تو میں اس کا استعمال کہاں کروں ؟
انشورنس کی مروجہ تمام اقسام شرعی خرابیوں کی بنا پر ناجائزہیں، ان میں حصہ لیناجائزنہیں ہے۔ اس بارے میں شرعی حکم یہی ہے کہ جتنی رقم آپ نے بیس سال میں جمع کروائی ہے، وہ رقم آپ استعمال کرسکتے ہیں اور جو رقم آپ کو آپ کی اصل رقم پر زائدملی ہے وہ سود ہے، جسے ادارے کوواپس کرنا لازم ہے،اگر واپسی ممکن نہ ہو تو کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو بغیر ثواب کی نیت کے دے دی جائے۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144105200990
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن