بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

انسانی اعضاء کی پیوندکاری اور خون کا حکم / حیوانات، جمادات اور نباتات کے ذریعہ پیوندکاری کا حکم


سوال

 انسانی اعضاء کی پیوندکاری اور حیوانات جمادات نباتات کے اعضاء کو انسانی اعضاء کے تبادلے کے طور پر استعمال کرنے کے بارےمیں شریعت کی کیا تعلیمات ہیں؟، براہِ مہربانی تفصیل سے جواب عنایت فرمائیں!

جواب

انسانی اعضاء کی پیوند کاری کا حکم

          کسی انسانی عضو کا  (خواہ زندہ کا ہو یا مردہ کا)   دوسرے انسان کے جسم میں استعمال (معاوضہ کے ساتھ ہو یابغیرمعاوضہ کے)مندرجہ ذیل وجوہات کی بنیاد پر  جائز نہیں ہے:

(1)      کسی انسان کے جسم سے عضو کے حصول کے لیے انسانی  جسم کی چیر پھاڑ کی جاتی ہے جو کہ مثلہ ہے ، اور مثلہ شریعت میں جائز  نہیں ہے۔

(۲)     کسی چیز کو ہبہ کرنے یا عطیہ کے طور پر کسی کو دینے کے لیے یہ شرط ہے وہ شے مال ہو ، اور دینے  والے کی ملک ہو ، اور یہی شرط وصیت کے لیے بھی ہے۔انسان کو اپنے اعضاء میں حقِ منفعت تو حاصل ہے، مگر حقِ ملکیت حاصل نہیں ہے، جن اموال و منافع پر انسان کو حقِ مالکانہ حاصل نہ ہو  انسان  ان اموال یا منا فع کی مالیت کسی دوسرے انسان کو منتقل نہیں کرسکتا۔

(۳)   انسانی اعضاء و جوارح انسان کے پاس امانت ہیں  اور انسان ان کا نگران اور محافظ ہے، اور امین کو  ایسے تصرفات کا اختیار نہیں ہوتا جس کی اجازت امانت رکھنے والے نے نہ دی ہو۔

(۴)   انسان قابلِ احترام اور مکرم ہے، اس کے اعضاء میں سے کسی عضو کو  اس کے بدن سے الگ کرکے  دوسرے انسان کو دینے میں انسانی تکریم کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے علاج ومعالجہ  اور شدید مجبوری کے موقع پر بھی انسانی اعضاء کے استعمال کو ممنوع قرار دیا ہے، نیز جس طرح کسی زندہ آدمی کے کسی عضو کو لے کر علاج کرنا درست نہیں ہے، اسی طرح کسی مردہ انسان کے عضو سے بھی علاج کرنا جائز نہیں ہے۔

یعنی آدمی کے تمام اعضاء سے فائدہ اٹھانے کی حرمت اس کی تکریم و احترم کے پیشِ نظر ہے، تاکہ جس ہستی کو اللہ تعالی نے مکرم ومحترم بنایا ہے لوگ اس کے اعضاء و جوارح کو استعمال کرنے کی جسارت نہ کریں۔

  اگر انسانی اعضاء کی پیوندکاری کو جائز قرار دیا جائے تویہ پوری انسانیت کے لیے ایک بڑاخطرہ اورتباہی  کاذریعہ بنےگا،کیوں کہ موجودہ زمانہ کے حالات و ماحول اورمعاشرہ میں پھیلی ہوئی بددیانتی کودیکھتےہوئےکوئی بعیدنہیں کہ لوگ اعضاءکی منتقلی کےجواز کے فتووں کابےجااستعمال کرتے ہوئےاسےباقاعدہ ایک کاروبار کی شکل دے دیں اورانہی اعضاءکواپنا ذریعۂ معاش بنالیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ:

1.. بازار میں دیگراشیاء کی طرح انسانی اعضاء کی بھی علانیہ ورنہ خفیہ خرید و فروخت شروع ہوجائےگی، جو بلاشبہ انسانی شرافت  کے خلاف  اورناجائز ہے۔

۲.. غربت زدہ لوگ  اپنا اور بچوں کا پیٹ پالنے  کے لیے اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے اعضاء فروخت کرنا شروع کردیں گے۔

۳.. مُردوں کی بے حرمتی اوراُن کے ساتھ  ظالمانہ رویّہ شروع ہوجائے گا ،  بالخصوص لاوارث مُردے اپنے بہت سے اعضاء سے محروم ہوکر دنیا سے جایا کریں گے، اور یہ بھی بعید نہیں کہ مال و دولت کے لالچی اور پُجاری مدفون لاشوں کو اکھاڑکر اپنی ہوس پوری کرنے لگیں،جیسا کہ مختلف ذرائع سے سننے میں آتا رہتا ہے۔

۴.. خدا نخواستہ یہ معاملہ بڑھتا رہا تو صرف اپنی موت مرنے والوں تک ہی یہ سلسلہ محدود نہیں رہے گا ، بلکہ اس کام کے لیے  بہت سے معصوم انسانوں کے قتل کا بازار گرم ہوجانا اور اس مقصد  کے لیے اغوا کا شروع ہونا ممکن ہے جو پورے انسانی معاشرے کی تباہی کا اعلان ہے۔

    مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے یہ بات واضح ہوگئی کہ  انسانی اعضاء کی پیوند کاری شرعاً جائز نہیں ہے۔

انسانی خون کی منتقلی اور فروخت کا حکم

البتہ خون کی منتقلی کا حکم ذرا اس سے مختلف ہے،خون انسانی اجزاء میں سے ضرور  ہے، لیکن اعضاء میں سے نہیں ہے، نیز خون جب جسم سے نکل جائے تو وہ بھی نجس اور ناپاک ہوتا ہے، اس کا اصل تقاضا یہ ہے کہ  اس کی بھی کسی دوسرے کے جسم میں منتقلی حرام ہو، لیکن اضطراری حالات اور ضرورتِ شدیدہ کے موقعے پر  فقہاء نے عورت کے دودھ پر قیاس کرکے  اس کے استعمال کی اجازت دی ہے،  البتہ اس کی نجاست  کے پیشِ نظر اس کے استعمال کا حکم وہی ہے جو دوسری حرام اور نجس چیزوں کے استعمال کا ہے یعنی:

(۱)جب مریض اضطراری حالت میں ہو اور ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دیے بغیر اس کی جان بچانے کا کوئی راستہ نہ ہوتو خون دینا جائز ہے۔

(۲)جب ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دینے کی حاجت ہو، یعنی مریض کی ہلاکت کا خطرہ نہ ہو، لیکن اس کی رائے میں خون دیے بغیر صحت کا امکان نہ ہو ، تب بھی خون دینا جائز ہے۔

(۳) جب خون نہ دینے کی صورت میں  ماہر ڈاکٹر کے نزدیک مرض کی طوالت کا  اندیشہ  ہو، ا س   صورت میں بھی   خون دینے کی گنجائش ہے، مگر  اجتناب بہتر ہے۔ ان تمام صورتوں میں خون کاعطیہ دینا توجائز ہے، مگر خون کامعاوضہ لینا (یعنی اسے فروخت کرنا) درست نہیں ہے۔

(4) جب خون دینے سے محض منفعت و زینت اور قوت بڑھانا    مقصود ہو،  ایسی  صورت میں خون دینا  جائز نہیں ہے۔

انسانی اعضاء کے علاوہ دیگر حیوانات کے اعضاء یا نباتات سے بنے اعضاء لگانے کا حکم

باقی انسان کے لیے ضرورت پر انسانی اعضا ء کے علاوہ  کسی اور چیز کی پیوندکاری سے متعلق شرعی حکم درج ذیل ہے:

انسان کے لیے ضرورت پڑنے پر  انسانی اعضا کے علاوہ  دیگر چیزوں کے  مصنوعی اعضاء و اجزاء لگانا  جائز ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ مصنوعی اجزاء واعضاء پاک اشیاء سے بنے ہوں، نجس یاحرام سے بنے ہوئے نہ ہوں اور نہ ان میں نجس وحرام کی ملاوٹ ہو۔ لیکن اگر حلال متبادل موجود نہیں، اور مریض اگر حرام مصنوعی اجزاء یا اعضاء کی پیوندکاری نہیں کراتا تو جان یا کسی عضو کے جانے کا قوی اندیشہ ہو یا مرض کی شدت ہو تو ایسی حالت میں حرام یانجس اشیاء سے بنے ہوئے اعضاء واجزاء کا استعمال بھی جائز ہوگا، لیکن شرط یہ ہے کہ معتمد دین دار ڈاکٹر کے نزدیک اس کے علاوہ کوئی علاج نہ ہو اور اس سے بیماری اور تکلیف دور ہوجانے کا پورا یقین ہو۔

 حلال جانوروں کے تمام  اعضاء جب کہ وہ مذبوحہ ہوں پاک ہیں، اور خنزیر کے تمام اعضاءناپاک وحرام ہیں، اسی طرح حرام یا حلال جانوروں میں سے مردہ جانوروں کے وہ اعضاء جن میں حیات نہیں ہوتی، مثلاً بال، ناخن، کھر، دانت، سینگ اور صاف وخشک ہڈیاں بھی پاک ہیں، اسی طرح ان کی کھال بھی دباغت کے بعد پاک ہوجاتی ہے۔

لہٰذا  حلال مذبوح جانور ہو تو اس کے جملہ اعضاء اور حرام جانور اور مردار حلال جانور کے جو اعضاء پاک ہیں یا عملِ تطہیر سے پاک ہوجائیں، پاکی کے بعد پیوندکاری میں ان کا استعمال جائز ہے، البتہ حلال جانوروں کے اعضاء کا استعمال کرنا بنسبت حرام جانوروں کے زیادہ بہتر ہے۔

اور پیوندکاری میں نباتات کا استعمال بھی جائز ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200467

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں