بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

انسان و دیگر حیوانات کی کلوننگ کا شرعی حکم


سوال

انسانی کلوننگ اور جانوروں کی کلوننگ کا شرعی حکم کیا ہے؟برائے مہربانی تفصیلی جواب سے آگاہ فرمائیں!

جواب

انسانی کلوننگ ناجائز ہے، دیگر حیوانات کی کلوننگ اگرچہ مباح ہے، تاہم اس سے بھی اجتناب اولی ہے، تفصیل کے  لیے جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کے دارالافتاء سے  جاری فتوی ملاحظہ کیا جائے:

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں :

۱۔ انسانی ،حیوانی او نباتاتی کلوننگ کا کیا حکم ہے؟

۲۔ اگر اسے  الهندسة الوراثیة (genetic Engineering) کی مدد سے مختلف امراض کے دفعیہ کی جینز (genes) بنانے کے لیے کام میں لایا جائے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟

۳۔ کلوننگ کے موضوع پر مفصل مطالعہ کے لیے چند کتابوں کی طرف راہ نمائی فرمادیں ۔

الجواب حامدا مصلیا:

انسانی کلوننگ کا حکم:

(1) صورتِ مسئولہ میں کلوننگ کے ذریعے اولاد اور بچہ حاصل کرنا قرآن اور حدیث کی رو سے جائز نہیں، اس سے قرآن کے صریح اصولوں کی خلاف ورزی اور شریعت کے بے شمار اصولوں سے انحراف ، اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کے قانونِ ابدی سے بغاوت لازم آتی ہے ۔

اس کے علاوہ اس میں بے شمار مفاسد کا دروازہ کھل جائے گا اور اس میں مندرجہ ذیل نقصانات ہیں:

۱۔ والدین او ر  اولاد کے درمیان فطری محبت،عزت اور اکرام کا جو سلسلہ ہے وہ ختم ہوگا، اس لیے کہ اولاد کی خواہش ایک فطری جذبہ ہے اور اس جذبہ کی تکمیل اگر قدرت کے نظام ولادت سے ہو  تو  والدین اور اولاد کے درمیان فطری محبت کا سلسلہ برقرار رہے گا؛ کیوں کہ فطری نظامِ ولادت میں انسان کو مشکل اور تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، اور اس تکلیف دہ مراحل کے طفیل نہ صرف انسان، بلکہ حیوان بھی اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں،  زمانۂ  طفولیت میں والدین اولاد کی تکلیف اور غم سہتے ہیں، پھر والدین کے بڑھاپے کے زمانے میں اولاد ان کی خدمت کے لیے کمر بستہ ہوتے ہیں ۔

اب اگر انسانوں کی  پیدائش خلیات سے لیبارٹریوں میں شروع ہوجائے،  اور  ولادت کی تکلیف سے بچنے کے لیے غیروں کا رحم مستعار اور کرایہ پر لینا شروع ہوجائے تو فطری محبت کا سلسلہ خود بخود ختم ہوجائے گا۔

۲۔کلوننگ جسم فروشی کا  جدید  انداز ہے، عورتیں اپنے بیضے فروخت کرنا شروع کریں گی، اور جنین کی پرورش کے لیے خواتین اپنے رحم کو  کرایہ پر دینے لگ جائیں گی، اس طریقے سے کلون کے حصول کے لیے جسم فروشی کا جدید  انداز سے کاروبار شروع ہوجائے گا۔

۳۔کلوننگ سے نظامِ نسب تباہ ہوجائے گا؛ کیوں کہ کلوننگ میں جس عورت کا بیضہ لیا جاتاہے اور اس کے ساتھ کسی اور عورت کے خلیہ کا مرکزہ ملا کر کسی تیسری عورت کے رحم میں منتقل کردیا جاتاہے، پھر بچہ کی مالک پہلی خاتون شمار ہوتی ہے، حال آں کہ شریعت میں بچہ کا نسب بچہ جننے والی عورت سے ثابت ہوتاہے۔

۴۔ اس میں غیر کی کھیتی کا سیراب کرنا لازم آتاہے۔

۵۔ دو عورتوں کا خلیہ اور بیضہ ملانے کے بعد کسی تیسری عورت کا رحم کرایہ پر لینا پڑتا ہے جو شرعاً درست نہیں۔

۶۔کلوننگ نظامِ ستر و حجاب کے منافی ہے، اس لیے کہ کلوننگ میں ستر دیکھنا ایک لازمی چیز ہے اور حصولِ اولاد یا دیگر منفعت کے حصول کے لیے حرام کا ارتکاب جائز نہیں۔

۷۔کلوننگ سے اللہ تعالی کی خلقت میں تغیر و  تبدل بھی لازم آتا ہے، اور یہ ایک شیطانی عمل ہے، شیطان کو جب جنت سے نکال دیا گیا تھا اس وقت اس نے اولاد آدم علیہ الصلاہ والسلام کو گم راہ کرنے کی قسم کھائی تھی اور کہا تھا کہ : میں اولادِ آدم کو مختلف بہانوں سے گم راہ کروں گا ، تاکہ وہ اللہ تعالی کی خلقت بگاڑے اور اپنے تصرفات اس میں بروئے کارلائے۔ سورۃ النساء آیت ۱۱۹ میں اس کی تصریح ہے۔

لہذا انسانی کلوننگ شریعت مطہر ہ کی رو سے ناجائز اور حرام ہے ۔

اسی طرح خود بہت سے مغربی دانشوروں نے اس کو ممنوع قرار دیا ہے۔

حیوانی کلوننگ کا حکم:

’’حیوانی کلوننگ میں کسی غیر جنس جانور سے خلیات لے کر بچہ پیدا کرنا اگر چہ مباح ہے، لیکن غیر مناسب ضرور ہے۔

مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر اس سے اجتناب بہتر ہے: 

۱۔ حیوانی کلوننگ میں ایک ہی طرز کے مخصوص جانور  پیدا کیے جاتے ہیں جو قدرتی وفطری نظام میں موجود توازن کو بگاڑ سکتے ہیں جو تباہی کا سبب بنے گا۔

۲۔ حیوانات میں اللہ تعالی نے رنگوں اور صورتوں میں تنوع پسند کیا ہے، کلوننگ اس کے بگاڑ نے کا ذریعہ بنے گا۔

۳۔ کلوننگ فطری سلسلہ توالد و تناسل کو ختم کرنے کا ذریعہ ہے۔

۴۔ یہ تغیر لخلق اللہ یعنی اللہ تعالی کی خلقت کو بگاڑ نا ہے جو ایک شیطانی عمل  ہے؛ کیوں کہ شیطان نے کہا تھا کہ میں مخلوق کو تعلیم دوں گا کہ وہ اللہ تعالی کی بنی ہوئی صورتوں کو بگاڑا کریں گے۔

نباتاتی کلوننگ کا حکم:

جہاں تک نباتاتی کلوننگ کا تعلق ہے اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں، زراعت کو فروغ اور ترقی دینے کے لیے اس کو بروئے کار لانے میں کوئی حرج نہیں، احادیثِ مبارکہ میں ’’تابیر ‘‘کے نام سے اس کے نظائر اور تفصیلات موجود ہیں۔

(2) صورتِ مسئولہ (genetic Engineering) کی مدد سے مختلف امراض کے دفعیہ کے  لیے اس کے استعمال کی دو جہتیں ہیں:

ایک یہ ہے کہ انسان میں جنیاتی تبدیلی کسی مضرت کے دفعیہ کے لیے ہو، دوسرا یہ کہ اس کا استعمال طلبِ منفعت کے لیے ہو۔

اگر دفع مضرت کے لیے ہو،  مثلاً: کسی انسان کو ایسی بیماری لاحق ہو گئی ہو  جس سے ہلاکت یا شدید تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں بیماری کو دفع کرنے کے لیے اگر متاثرہ حصے کے جین تبدیل کرلیے جائیں، جس میں مذکورہ لاحق شدہ بیماری ختم کرنے کی صلاحیت موجود ہو تو ایسی صورت میں متأثرہ حصے میں جین داخل کرنا جائز ہے، اگرچہ وہ متأثرہ حصہ ستر میں سے ہو۔

اس کے برخلاف اگر جین کی تبدیلی کسی منفعت کے حصول کے لیے ہو ، مثلاً:کسی انسان کے نطفہ (منی ) میں بچہ  پیدا  کرنے کے جراثیم نہ ہوں اب جہاں نطفہ بنتا ہے وہاں ایسا جین ڈال دیا جائے جو پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو ایسی صورت میں اگر ستر کا دیکھنا لازم نہ آتا ہو  تو شرعاً اس میں کوئی حرج نہیں، اگر ستر کا دیکھنا لازم آتا ہو تو  چوں کہ اس میں معصیت کا ارتکاب (ستر کا دیکھنا)لازم آتا ہے؛ لہٰذا علماءِ  کرام اس قسم کے علاج کو ناجائز کہتے ہیں۔ (ماخوذ از : کلوننگ انتساخ ، ابتدا، ارتقاء اور شرعی حیثیت ، مؤلفہ :مفتی صالح محمد کاروڑی شہید رحمہ اللہ مفتی دارالافتاء،جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی، ط :اسلامی کتب خانہ بنوری ٹاؤن کراچی)

(3)  کلوننگ کے موضوع پر زیادہ مفصل کتاب دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ علامہ بنوری ٹاؤن کے مفتی صالح محمد کاروڑی شہید رحمہ اللہ کی ایک کتاب ہے، ’’کلوننگ انتساخ، ابتدا، ارتقا اور شرعی حیثیت‘‘  مطبوعہ: اسلامی کتب خانہ کراچی اور ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب دامت برکاتہم کے کچھ مضامین بھی ہیں جو ’’ فقہی مضامین ‘‘ میں شامل ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200252

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں