بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

جب مقتدیوں کو حرج ہو تو امام کے لیے باجماعت نماز میں مقدارِ مسنون سے زائد تلاوت کرنا مکروہ تحریمی ہے


سوال

ایک مسجد میں امام صاحب گرمیوں میں بہت آہستہ نماز پڑھاتے ہیں، انہیں کہا گیا کہ گرمی ہوتی ہے، نماز  ذرا جلدی پڑھا دیا کریں،  وہ کہتے ہیں کہ تکلیف برداشت کرو،  نماز جلدی پڑھنا ٹھیک نہیں ہے، اس حوالہ سے شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ائمہ کرام کو نماز میں تخفیف کا حکم دیا ہے، اور مقتدیوں کی پریشانی کی رعایت کرنے کی وجہ سے طوالت سے اجتناب کا حکم صادر فرمایا ہے۔

اصطلاحِ شرع میں طوالت سے مراد مقدارِ مسنون سے زائد قراءت و تسبیحات کرنا ہے، پس مقدارِ مسنون کی رعایت کرتے ہوئے تمام افعال ادا کرنا ممانعت میں داخل نہیں، البتہ کوئی ایسا عذر جو نماز کے دوران خشوع و خضوع میں مخل ہو، عارضی طور پر اس کی وجہ سے مقدارِ مسنون ترک کرنے کی بھی اجازت ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ امام صاحب مسنون مقدار سے زیادہ تلاوت کرتے ہیں اور رکوع و سجود میں بھی زیادہ وقت لگاتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ مقدارِ مسنون سے زائد کوئی عمل ہرگز نہ کریں، قراءت بھی مسنون مقدار کریں، اور تلاوت کرتے ہوئے تجویدی قواعد کی پاس داری کے ساتھ حدر یا تدویر میں قراءت کریں،  مدود اور غنات میں اِطناب سے پرہیز کریں،  بہتر یہ ہے کہ تسبیحات بھی تین مرتبہ کہیں، زیادہ سے زیادہ پانچ مرتبہ کہیں، تاکہ جن ضعیف لوگوں کو سجدے میں جانے اور اٹھنے میں وقت لگتاہے وہ بھی تین مرتبہ تسبیحات کہہ سکیں، جیساکہ جامعِ ترمذی میں امام کے لیے پانچ مرتبہ تسبیحات کا ذکر ہے۔

بہرحال  مذکورہ صورت میں مسنون مقدار سے زیادہ تلاوت کرنا اور تسبیحات پڑھنا تقلیلِ جماعت اور تنفیر کا سبب بنے گا، اورایسی صورت میں فقہاءِ کرام  نے مقدارِ  مسنون سے زائد قراءت و اذکار اور تسبیحات کرنے کو مکروہِ تحریمی قرار دیا ہے، جس سے بچنا لازم ہے۔

اور اگر مذکورہ امام صاحب مسنون مقدار تلاوت کرتے ہیں، اور رکوع و سجدہ میں پانچ سے زیادہ مرتبہ تسبیح بھی نہیں پڑھتے تو مقتدیوں کو بھی چاہیے کہ امام صاحب کو بہت زیادہ جلدی پر مجبور نہ کریں، ہاں! اس صورت میں اگر امام صاحب تلاوت بہت آہستہ کرتے ہیں، مد اور غنے بہت لمبے کرتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ قراءت اور تسبیحات پڑھنے کی رفتار میں اعتدال کے ساتھ  روانی اختیار کرلیں۔

ورنہ مسنون مقدار کے اہتمام کے بعد مقتدیوں کو بھی صبر کرنا چاہیے، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے جہاں مقتدیوں کی وجہ سے نماز میں تخفیف کا حکم دیا ہے، وہیں مسجدِ نبوی میں عرب کی گرمی میں نماز میں تلاوت کی جو مقدار اختیار فرمائی ہے وہی ہمارے لیے مسنون ہے، یقیناً وہ گرمی ہمارے یہاں کی گرمی سے زیادہ تھی، جب کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بیان فرماتے ہیں کہ مسجد کی چھت نیچی تھی، گرمی شدید ہوتی تھی، اور جمعے میں مجمع کی وجہ سے پسینے وغیرہ کی بو ہوجاتی تھی تو آپ ﷺ نے جمعے کے دن غسل کا حکم فرمایا، لیکن جمعے کی نماز میں رسول اللہ ﷺ کی تلاوت کا معمول کتبِ حدیث میں موجود ہے، کبھی سورہ اعلیٰ اور سورہ غاشیہ اور کبھی سورہ جمعہ اور سورہ منافقون اور کبھی سورہ ق وغیرہ۔ اور صحیح روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا خطبۂ جمعہ نمازِ جمعہ کی تلاوت سے مختصر ہوتاتھا۔

نیز جس موقع پر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے ایک مقتدی نے آپ ﷺ سے ان کی شکایت کی کہ ہم لوگ دن بھر اونٹوں سے پانی کھینچنے کا کام کرکے تھک ہار کے آتے ہیں اور انہوں نے نماز میں سورہ بقرہ شروع کردی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو  سخت تنبیہ فرمائی، اس موقع پر بھی رسول اللہ ﷺ نے جو مقدار حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو تلاوت کرنے کے لیے بیان فرمائی تھی (باوجود یہ کہ وہ لوگ دن بھر کام کرکے تھکنے کی شکایت کررہے تھے) وہ مسنون مقدار سے کم نہیں تھی، جیساکہ مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے انہیں فرمایا تھاکہ سورہ والشمس وضحٰہا، والیل اذا یغشیٰ، سبح اسم ربک الاعلیٰ کے ذریعے نماز پڑھایا کریں، اور یہ عشاء کی نماز ہوتی تھی، جس میں یہی مقدار مسنون ہے۔ (بخاری و مسلم)

پنج وقتہ نمازوں میں تلاوت کی مسنون مقدار یہ ہے کہ فجر اور ظہر  میں طوالِ مفصل (سورہ ق سے لے کر سورہ بروج تک) میں سے کوئی سورت یا اتنی مقدار تلاوت کرے، اور عصر اور عشاء کی نماز میں اوساطِ مفصل (سورہ طارق سے سورہ بینہ تک) میں سے کوئی سورت یا اتنی مقدار پڑھے، اور مغرب کی نماز میں قصارِ مفصل (سورہ زلزال سے سورہ ناس تک) میں سے کوئی سورت یا اتنی مقدار پڑھے۔

"١١٣٠ - وَعَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: «قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلَاةِ وَأَنَا أُرِيدُ إِطَالَتَهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي، مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ مِنْ بُكَائِهِ» ". رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

١١٣٠ - (وَعَنْ أَبِي قَتَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلَاةِ وَأَنَا أُرِيدُ إِطَالَتَهَا) أَيْ إِطَالَةً نِسْبِيَّةً أَوْ عَلَى خِلَافِ عَادَتِي، (فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ) أَيْ: أَخْتَصِرُ (فِي صَلَاتِي) : وَأَتَرَخَّصُ بِمَا تَجُوزُ بِهِ الصَّلَاةُ مِنَ الِاقْتِصَارِ وَتَرْكِ تَطْوِيلِ الْقِرَاءَةِ وَالْأَذْكَارِ، قَالَ الطِّيبِيُّ: أَيْ: أُخَفِّفُ، كَأَنَّهُ تَجَاوَزَ مَا قَصَدَهُ، أَيْ مَا قَصَدَ فِعْلَهُ لَوْلَا بُكَاءُ الصَّبِيِّ، قَالَ: وَمَعْنَى التَّجَوُّزِ: أَنَّهُ قَطَعَ قِرَاءَةَ السُّورَةِ وَأَسْرَعَ فِي أَفْعَالِهِ، انْتَهَى. وَالْأَظْهَرُ أَنَّهُ شَرَعَ فِي سُورَةٍ قَصِيرَةٍ بَعْدَمَا أَرَادَ أَنْ يَقْرَأَ سُورَةً طَوِيلَةً. ١١٣١ - وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " «إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمُ السَّقِيمَ وَالضَّعِيفَ وَالْكَبِيرَ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ» " مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

١١٣٢ - «وَعَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا قَالَ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَأَتَأَخَّرُ عَنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مِنْ أَجْلِ فُلَانٍ مِمَّا يُطِيلُ بِنَا، فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ يَوْمَئِذٍ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيَتَجَوَّزْ، فَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ، وَالْكَبِيرَ، وَذَا الْحَاجَةِ» ". مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

١١٣٢ - (وَعَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو مَسْعُودٍ أَنَّ رَجُلًا قَالَ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَأَتَأَخَّرُ عَنْ صَلَاةِ الْغَدَاةِ) أَيْ: صَلَاةِ الصُّبْحِ بِالْجَمَاعَةِ (مِنْ أَجْلِ فُلَانٍ) : يَعْنِي: إِمَامَ مَسْجِدِ حَيِّهِ أَوْ قَبِيلَتِهِ (مِمَّا يُطِيلُ بِنَا) أَيْ: مِنْ أَجْلِ إِطَالَتِهِ بِنَا، فَمِنْ الْأُولَى تَعْلِيلِيَّةٌ لِلتَّأَخُّرِ، وَالثَّانِيَةُ بَدَلٌ مِنْهَا، وَقَالَ الطِّيبِيُّ: ابْتِدَائِيَّةٌ مُتَعَلِّقَةٌ بِـ (أَتَأَخَّرُ) وَالثَّانِيَةُ مَعَ مَا فِي حَيِّزِهَا بَدَلٌ مِنْهَا، وَمَعْنَى تَأَخُّرِهِ عَنِ الصَّلَاةِ أَنَّهُ لَا يُصَلِّيهَا مَعَ الْإِمَامِ. (فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ) : بِالنَّصْبِ عَلَى الْحَالِيَةِ إِنْ كَانَتِ الرُّؤْيَةُ بَصَرِيَّةً، وَعَلَى الْمَفْعُولِيَّةِ إِنْ كَانَتْ عِلْمِيَّةً (غَضَبًا مِنْهُ) أَيْ: مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (يَوْمَئِذٍ) ; لِأَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مَبْعُوثٌ لِلْوَصْلِ، وَهَذَا بَاعِثٌ لِلْفَصْلِ، وَالتَّقْيِيدُ بِقَوْلِهِ فِي مَوْعِظَةٍ مُشْعِرٌ بِأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يَغْضَبُ لِنَفْسِهِ، قَالَ الطِّيبِيُّ: أَيْ: كَانَ الْيَوْمَ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ فِي الْأَيَّامِ الْأُخَرِ، وَفِيهِ وَعِيدٌ عَلَى مَنْ يَسْعَى فِي تَخَلُّفِ الْغَيْرِ عَنِ الْجَمَاعَةِ. قُلْتُ: وَلَوْ بِإِطَالَةِ الطَّاعَةِ. (ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ مِنْكُمْ) أَيْ: بَعْضُكُمْ (مُنَفِّرِينَ) أَيْ: لِلنَّاسِ مِنَ الصَّلَاةِ بِالْجَمَاعَةِ لِتَطْوِيلِكُمُ الصَّلَاةَ (فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى) : قِيلَ: " مَا " زَائِدَةٌ، وَقِيلَ مَنْصُوبَةُ الْمَحَلِّ عَلَى الْمَفْعُولِ الْمُطْلَقِ، أَيْ: أَيُّكُم أَيَّ صَلَاةٍ صَلَّى (بِالنَّاسِ فَلْيَتَجَوَّزْ) أَيْ: لِيَقْتَصِرْ عَلَى الْقَدْرِ الْمُنَاسِبِ لِلْوَقْتِ، قَالَ الطِّيبِيُّ: " مَا " زَائِدَةٌ مُؤَكِّدَةٌ لِمَعْنَى الْإِبْهَامِ فِي أَيْ، وَصَلَّى فِعْلُ شَرْطٍ، وَلْيَتَجَوَّزْ جَوَابُهُ (فَإِنَّ فِيهِمْ) أَيْ: فِي جُمْلَتِهِمْ (الضَّعِيفَ) : بِالْعِلَّةِ أَوِ الْهِمَّةِ (وَالْكَبِيرَ) : بِالسِّنِّ تَخْصِيصٌ بَعْدَ تَعْمِيمٍ (وَذَا الْحَاجَةِ) أَيْ: وَلَوْ كَانَ قَوِيًّا (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ) : قَالَ مِيرَكُ: وَرَوَاهُ النَّسَائِيُّ، وَابْنُ مَاجَهْ". ( مرقاة المفاتيح، باب من علي الامام، ٣ / ٨٧٢)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيحمیں ہے:

"قَالَ الْقَاضِي: خِفَّةُ الصَّلَاةِ عِبَارَةٌ عَنْ عَدَمِ تَطْوِيلِ قِرَاءَتِهَا وَالِاقْتِصَارِ عَلَى قِصَارِ الْمُفَصَّلِ، وَكَذَا قَصْرِ الْمُنْفَصِلِ، وَعَنْ تَرْكِ الدَّعَوَاتِ الطَّوِيلَةِ فِي الِانْتِقَالَاتِ، وَتَمَامُهَا عِبَارَةٌ عَنِ الْإِتْيَانِ بِجَمِيعِ الْأَرْكَانِ وَالسُّنَنِ وَاللُّبْثِ رَاكِعًا وَسَاجِدًا بِقَدْرِ مَا يُسَبِّحُ ثَلَاثًا، انْتَهَى. وَفِيهِ، إِيهَامٌ أَنَّهُ مَا كَانَ يَقْرَأُ أَوْسَاطَ الْمُفَصَّلِ وَطُوَالَهَا، وَقَدْ ثَبَتَ قِرَاءَتُهُ إِيَّاهَا، فَالْمَعْنَى بِالْخِفَّةِ أَنَّهُ مَا كَانَ يَمْطُطُهَا وَيَمْدُدُهَا فِي غَيْرِ مَوَاضِعِهَا، كَمَا يَفْعَلُهُ الْأَئِمَّةُ الْمُعَظَّمَةُ حَتَّى فِي مَكَّةَ الْمُكَرَّمَةِ فِي زَمَانِنَا، فَإِنَّهُمْ يَمُدُّونَ فِي الْمَدَّاتِ الطَّبِيعِيَّةِ قَدْرَ ثَلَاثِ أَلِفَاتٍ، وَيُطَوِّلُونَ السَّكَتَاتِ فِي مَوَاضِعِ الْوُقُوفَاتِ، وَيَزِيدُونَ فِي عَدَدِ التَّسْبِيحَاتِ انْتِظَارًا لِفَرَاغِ الْمُكَبِّرِينَ الْمُطَوِّلِينَ فِي النَّغَمَاتِ، بَلْ كَانَتْ قِرَاءَتُهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ مُجَوَّدَةً مُحَسَّنَةً مُرَتَّلَةً مُبَيَّنَةً، وَمِنْ خَاصِّيَّةِ قِرَاءَتِهِ اللَّطِيفَةِ أَنَّهَا كَانَتْ خَفِيفَةً عَلَى النُّفُوسِ الشَّرِيفَةِ، وَلَوْ كَانَتْ طَوِيلَةً ; لِأَنَّ الْأَرْوَاحَ لَاتَشْبَعُ مِنْهَا وَالْأَشْبَاحَ لَاتَقْنَعُ بِهَا، وَالْمَذْهَبُ عِنْدَنَا أَنَّهُ لَايَنْبَغِي لِلْإِمَامِ أَنْ يُطِيلَ التَّسْبِيحَ أَوْ غَيْرَهُ عَلَى وَجْهٍ يَمَلُّ بِهِ الْقَوْمُ بَعْدَ الْإِتْيَانِ بِقَدْرِ السُّنَّةِ؛ لِأَنَّ التَّطْوِيلَ سَبَبُ التَّنْفِيرِ، وَأَنَّهُ مَكْرُوهٌ وَإِنْ رَضِيَ الْقَوْمُ بِالزِّيَادَةِ لَايُكْرَهُ، وَلَايَنْبَغِي أَنْ يَنْقُصَ عَنْ قَدْرِ أَقَلِّ السُّنَّةِ فِي الْقِرَاءَةِ وَالتَّسْبِيحِ لِمَلَلِهِمْ". ( بَابُ مَا عَلَى الْإِمَامِ، ٣ / ٨٧١)

مرقاة المفاتيحمیں ہے:

"وَأَمَّا الْيَوْمَ فَأَئِمَّتُنَا إِذَا صَلَّوْا بِالنَّاسِ فَيُطِيلُونَ غَايَةَ الْإِطَالَةِ، وَيُرَاعُونَ جَمِيعَ الْآدَابِ الظَّاهِرَاتِ، وَإِذَا صَلَّوْا فُرَادَى فَيَقْتَصِرُونَ عَلَى أَدْنَى مَا تَجُوزُ بِهِ الصَّلَاةُ، وَلَوْ فِي بَعْضِ الرِّوَايَاتِ، وَاللَّهُ وَلِيُّ دِينِهِ، وَمَعَ هَذَا فَنَحْمَدُ اللَّهَ تَعَالَى عَلَى مَا بَقِيَ بَعْدَ الْأَلْفِ مِنْ مُتَابَعَةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرُفَ وَكَرُمَ". ( ٣ ٨٧٤)

تنوير الابصار مع الدر المختار و رد المحتارمیں ہے:

"يُكْرَهُ تَحْرِيمًا (تَطْوِيلُ الصَّلَاةِ) عَلَى الْقَوْمِ زَائِدًا عَلَى قَدْرِ السُّنَّةِ فِي قِرَاءَةٍ وَأَذْكَارٍ رَضِيَ الْقَوْمُ أَوْ لَا لِإِطْلَاقِ الْأَمْرِ بِالتَّخْفِيفِ نَهْرٌ وَفِي الشُّرُنْبُلَالِيَّةِ ظَاهِرُ حَدِيثِ مُعَاذٍ أَنَّهُ لَا يَزِيدُ عَلَى صَلَاةِ أَضْعَفِهِمْ مُطْلَقًا. وَلِذَا قَالَ الْكَمَالُ إلَّا لِضَرُورَةٍ، وَصَحَّ «أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ  قَرَأَ بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ فِي الْفَجْرِ حِينَ سَمِعَ بُكَاءَ صَبِيٍّ»".

رد المحتار:

"(قَوْلُهُ: تَحْرِيمًا) أَخَذَهُ فِي الْبَحْرِ مِنْ الْأَمْرِ بِالتَّخْفِيفِ فِي الْحَدِيثِ الْآتِي قَالَ: وَهُوَ لِلْوُجُوبِ إلَّا لِصَارِفٍ وَلِإِدْخَالِ الضَّرَرِ عَلَى الْغَيْرِ اهـ وَجَزَمَ بِهِ فِي النَّهْرِ (قَوْلُهُ: زَائِدًا عَلَى قَدْرِ السُّنَّةِ) عَزَاهُ فِي الْبَحْرِ إلَى السِّرَاجِ وَالْمُضْمَرَاتِ. قَالَ: وَذَكَرَهُ فِي الْفَتْحِ بَحْثًا لَا كَمَا يَتَوَهَّمُهُ بَعْضُ الْأَئِمَّةِ فَيَقْرَأُ يَسِيرًا فِي الْفَجْرِ كَغَيْرِهَا اهـ (قَوْلُهُ: لِإِطْلَاقِ الْأَمْرِ بِالتَّخْفِيفِ) وَهُوَ مَا فِي الصَّحِيحَيْنِ «إذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيهِمْ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالْكَبِيرَ، وَإِذَا صَلَّى لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ»، وَقَدْ تَبِعَ الشَّارِحُ فِي ذَلِكَ صَاحِبَ الْبَحْرِ.....(قَوْلُهُ: وَفِي الشُّرُنْبُلَالِيَّةِ إلَخْ) مُقَابِلٌ لِقَوْلِهِ زَائِدًا عَلَى قَدْرِ السُّنَّةِ. وَحَاصِلُهُ أَنَّهُ يَقْرَأُ بِقَدْرِ حَالِ الْقَوْمِ مُطْلَقًا: أَيْ وَلَوْ دُونَ الْقَدْرِ الْمَسْنُونِ، وَفِيهِ نَظَرٌ؛ أَمَّا أَوَّلًا فَلِأَنَّهُ مُخَالِفٌ لِلْمَنْقُولِ عَنْ السِّرَاجِ وَالْمُضْمَرَاتِ كَمَا مَرَّ؛ وَأَمَّا ثَانِيًا فَلِأَنَّ الْقَدْرَ الْمَسْنُونَ لَايَزِيدُ عَلَى صَلَاةِ أَضْعَفِهِمْ؛ لِأَنَّهُ كَانَ يَفْعَلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عِلْمِهِ بِأَنَّهُ يَقْتَدِي بِهِ الضَّعِيفُ وَالسَّقِيمُ وَلَايَتْرُكُهُ إلَّا وَقْتَ الضَّرُورَةِ؛ وَأَمَّا ثَالِثًا فَلِأَنَّ قِرَاءَةَ «مُعَاذٍ لَمَّا شَكَاهُ قَوْمُهُ إلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: أَفَتَّانٌ أَنْتَ يَا مُعَاذُ» إنَّمَا كَانَتْ زَائِدَةً عَلَى الْقَدْرِ الْمَسْنُونِ. قَالَ الْكَمَالُ فِي الْفَتْحِ: وَقَدْ بَحَثْنَا أَنَّ التَّطْوِيلَ: هُوَ الزِّيَادَةُ عَلَى الْقِرَاءَةِ الْمَسْنُونَةِ، فَإِنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُ وَقِرَاءَتُهُ هِيَ الْمَسْنُونَةُ، فَلَا بُدَّ مِنْ كَوْنِ مَا نَهَى عَنْهُ غَيْرَ مَا كَانَ دَأْبَهُ إلَّا لِضَرُورَةٍ، وَقِرَاءَةُ مُعَاذٍ لَمَّا قَالَ لَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَالَ كَانَتْ بِالْبَقَرَةِ عَلَى مَا فِي مُسْلِمٍ: «أَنَّ مُعَاذًا افْتَتَحَ بِالْبَقَرَةِ فَانْحَرَفَ رَجُلٌ فَسَلَّمَ ثُمَّ صَلَّى وَحْدَهُ وَانْصَرَفَ» وَقَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إذَا أَمَمْت بِالنَّاسِ فَاقْرَأْ بِالشَّمْسِ وَضُحَاهَا، وَسَبِّحْ اسْمَ رَبِّك الْأَعْلَى، وَاقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّك، وَاللَّيْلِ إذَا يَغْشَى» " لِأَنَّهَا كَانَتْ الْعِشَاءَ، وَإِنَّ قَوْمَ مُعَاذٍ كَانَ الْعُذْرُ مُتَحَقِّقًا فِيهِمْ لَا كَسَلًا مِنْهُمْ فَأَمَرَ فِيهِمْ بِذَلِكَ لِذَلِكَ، كَمَا ذُكِرَ «أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ فِي الْفَجْرِ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالُوا لَهُ: أَوْجَزْت، قَالَ: سَمِعْت بُكَاءَ صَبِيٍّ فَخَشِيت أَنْ تُفْتَنَ أُمُّهُ» اهـ مُلَخَّصًا. فَقَدْ ظَهَرَ مِنْ كَلَامِهِ أَنَّهُ لَايَنْقُصُ عَنْ الْمَسْنُونِ إلَّا لِضَرُورَةٍ كَقِرَاءَتِهِ بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ لِبُكَاءِ الصَّبِيِّ، وَظَهَرَ مِنْ حَدِيثِ مُعَاذٍ أَنَّهُ لَايَنْقُصُ عَنْ الْمَسْنُونِ لِضَعْفِ الْجَمَاعَة؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُعَيِّنْ لَهُ دُونَ الْمَسْنُونِ فِي صَلَاةِ الْعِشَاءِ، بَلْ نَهَاهُ عَنْ الزِّيَادَةِ عَلَيْهِ مَعَ تَحَقُّقِ الْعُذْرِ فِي قَوْمِهِ". ( ١ / ٥٦٤ - ٥٦٥) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201092

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں