بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کو بطورِ اجرت عشر دینا


سوال

ہمارے علاقے میں یہ رائج ہے کہ امام سے اس شرط پر امامت کراتے ہیں  کہ  اس  محلے  کے لوگ اپنے کھیتوں کا عشرامام ہی کو دیں گے, باقی امام کے لیے کوئی  تنخواہ کچھ بھی نہیں، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

درج بالا مسئلہ کی چند صورتیں ممکن ہیں،  ہرایک کی تفصیل مع حکم درج ذیل ہے:

1۔اگر امام کی تنخواہ مقرر ہو اور ماہانہ وظیفہ انہیں دیاجاتاہو ،لیکن تنخواہ کی رقم امام کی ضروریات کے لیے ناکافی ہو، امام غریب ہو ،سید نہ ہوتو اس صورت میں امام کو تعاون کے طور پر زکاۃ، عشر دیناجائز ہے، نیزباعثِ اجر وثواب ہے۔

2۔اگر امام کی تنخواہ مقرر نہ ہواور علاقے کے لوگ  امامت کے بدلہ میں زکاۃ، عشر وغیرہ دیتے ہیں تویہ جائز نہیں ، اس سے زکاۃ و عشر ادا نہ ہوگا۔

3۔اگر زکاۃ وعشر بطورِ  تنخواہ کے دینے  کی بات نہیں ہوئی،  لیکن رواج یہی ہوکہ نماز پڑھانے کے عوض یہ چیزیں دی جاتی ہوں تو یہ صورت بھی ناجائز ہے۔یعنی امامت کے عوض میں بطورِ شرط یا بطورِ  عرف امام کو  زکاۃ وعشردینا درست نہیں۔

4۔اگر کہیں یہ صورت ہو کہ امام امامت اور متعلقہ خدمات سرانجام دیتاہو،اور اس سے امامت کے بدلہ میں زکاۃ وعشر دینے کا معاہدہ نہ کیاہو،  نیز وہاں کا عرف بھی یہ نہ ہو، اور امام ایساہوکہ لوگ صدقاتِ واجبہ وعشر دیں یانہ دیں بہر صورت وہ امامت کرتاہو تو ایساامام اگر مستحق ہوتو اسے زکاۃ وعشر دیاجاسکتاہے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"باب المصرف  أي مصرف الزكاة والعشر وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم ( هو فقير وهو من له أدنى شيء ) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير تام مستغرق في الحاجة (ومسكين من شيء له ) على المذهب؛ لقوله تعالى: { أو مسكيناً ذا متربة } [البلد 13] وآية السفينة للترحم ( وعامل ) يعم الساعي والعاشر ( فيعطي ) ولو غنياً لا هاشمياً؛ لأنه فرغ نفسه لهذا العمل فيحتاج إلى الكفاية والغني لايمنع من تناولها عند الحاجة كابن السبيل". (2/339)

وفیہ ایضاً :

"( من مسلم فقير ) ولو معتوهاً ( غير هاشمي ولا مولاه ) أي معتقه، وهذا معنى قول الكنز: تمليك المال أي المعهود إخراجه شرعاً ( من قطع المنفعة عن الملك من كل وجه )".(2/258)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وكما لايجوز صرف الزكاة إلى الغني لايجوز صرف جميع الصدقات المفروضة والواجبة إليه كالعشور والكفارات والنذور وصدقة الفطر؛ لعموم قوله تعالى: { إنما الصدقات للفقراء}، وقول النبي صلى الله عليه وسلم: { لاتحل الصدقة لغني}؛ ولأن الصدقة مال تمكن فيه الخبث؛ لكونه غسالة الناس؛ لحصول الطهارة لهم به من الذنوب، ولايجوز الانتفاع بالخبيث إلا عند الحاجة، والحاجة للفقير لا للغني". (4/32)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200500

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں