بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کا رکوع سے اٹھ کر تکبیر کہنا / امام کو رکوع میں پانے والا کب رکعت پانے والے شمار ہوگا؟


سوال

؂کچھ امام ایسے ہوتے ہیں کہ رکوع سے پورا کھڑے ہوجاتے ہیں، پھر تکبیر کہتے ہیں، ایسی حالت میں کہ امام کھڑا ہوگیا کوئی مقتدی جو امام کو نہیں دیکھ رہا ہے، اس نے نیت باندھ لی تو کیا اس کی نماز ہوگی؟ ظاہر ہے کہ اس کی نماز نہ ہوگی، لیکن اس کی نماز رہ گئی ہے، اس کا گناہ گار کون ہوگا؟ 

جواب

مقتدی کا تکبیراتِ انتقال امام سے پہلے کہنا، یا امام سے پہلے رکوع اور سجدہ سے سر اٹھانا مکروہ ہے، اور دوسری طرف تکبیراتِ انتقال اور تسمیع کے کلمات ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہوتے ہوئے کہنا چاہیے،  اس لیے اگر امام رکوع سے سر اٹھانے کے متصل بعد  تکبیر  اس لیے کہتاہو کہ مقتدی اس کی تکبیر کے بعد تکبیر کہہ سکیں اور رکوع سے اٹھ سکیں تو یہ درست ہے، البتہ زیادہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے، بلکہ رکوع سے اٹھتے ہوئے تکبیر کہہ لینی چاہیے۔

نیز امام رکوع کی حالت میں ہو اور  کوئی مقتدی قیام کی حالت میں تکبیرِ تحریمہ کہہ کر نماز میں شامل ہو تو اگر امام کے رکوع سے سر اُٹھانے سے پہلے پہلے ایک لمحہ بھی مقتدی نے امام کو رکوع میں پالیا ا گرچہ ایک تسبیح سے کم ہو، تو وہ اس رکعت کو پانے والا سمجھا جائےگا؛ اگر امام رکوع سے اُٹھنے کی حالت میں ہو اور مقتدی جانے کی حالت میں تو اس رکعت کو دہرانا ہوگا۔
لہذا اگر شامل ہونے والے مقتدی کو امام کے ساتھ رکوع مل جائے تو وہ رکعت پانے والا کہلائے گا اور اگر رکوع نہ ملے تو وہ رکعت پانے والا نہ کہلائے گا، پھر  اگر مقتدی کو اپنے امام کی حالت نماز میں معلوم تھی تو یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ چھوٹی گئی رکعت ادا کرے اور دین کے ضروری مسائل معلوم کرے۔ اور اگر مقتدی کو  نماز کے بعد معلوم ہوا کہ امام پہلے ہی رکوع سے اٹھ چکا تھا تو  نماز  کے منافی عمل سے پہلے پہلے وہ اپنی چھوٹی ہوئی رکعت لوٹاکر نماز پوری کرلے، تو نماز ادا ہوجائے گی،  اور اگر سلام کے بعد کوئی منافی نماز عمل کرچکا ہے تو از سرنو نماز پڑھ کر اس کا اعادہ کرلے۔

اور اگر کسی کو پچھلی صفوں میں ہونے کی وجہ سے یا امام کو نہ جاننے کی وجہ سے امام کی حالت معلوم نہ ہو تو ظاہر کا اعتبار کرتے ہوئے یہ دیکھا جائے گا کہ امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کہنا شروع کرنے سے پہلے اگر مقتدی رکوع میں چلاگیا خواہ ایک لمحے بھر کے لیے ہو تو وہ رکعت پانے والا شمار ہوگا، اور اگر امام کے سمع اللہ لمن حمدہ کہہ دینے کے بعد وہ رکوع میں گیا تو رکعت پانے والا شمار نہیں ہوگا۔

الفتاوى الهندية (1/ 107):
"ويكره للمأموم أن يسبق الإمام بالركوع والسجود وأن يرفع رأسه فيهما قبل الإمام. كذا في محيط السرخسي".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2/ 82):
"(قوله: وإن أدرك إمامه راكعا فكبر ووقف حتى رفع رأسه لم يدرك الركعة) خلافا لزفر هو يقول أدرك الإمام فيما له حكم القيام ولنا أن الشرط هو المشاركة في أفعال الصلاة ولم يوجد لا في القيام ولا في الركوع وذكر قاضي خان أن ثمرة الخلاف تظهر في أن هذا عنده لاحق في هذه الركعة حتى يأتي بها قبل فراغ الإمام وعندنا هو مسبوق بها حتى يأتي بها بعد فراغ الإمام وأجمعوا أنه لو انتهى إلى الإمام وهو قائم فكبر ولم يركع مع الإمام حتى ركع الإمام ثم ركع أنه يصير مدركا لتلك الركعة وأجمعوا أنه لو اقتدى به في قومة الركوع لم يصر مدركا لتلك الركعة اهـ".

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 455):
"ومن أدرك إمامه راكعا فكبر ووقف حتى رفع الإمام رأسه" من الركوع أو لم يقف بل انحط بمجرد إحرامه فرفع الإمام رأسه قبل ركوع المؤتم "لم يدرك الركعة" كما ورد عن ابن عمر رضي الله عنهما.

 قوله: "فرفع الإمام رأسه" مراده أنه رفع قبل أن يشاركه المؤتم في جزء من الركوع وإلا فظاهر التعبير بالفاء أن الرفع تحقق بعد الإنحطاط وحينئذ تحقق المشاركة فتكون الصلاة صحيحة قوله: "كما ورد عن ابن عمر رضي الله عنهما" ولفظه إذا أدركت الإمام راكعا فركعت قبل أن يرفع رأسه فقد أدركت الركعة وإن رفع قبل أن تركع فقد فاتتك الركعة". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201681

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں